ترکی اور ایران کے صدور نے خلیجی عرب ملکوں کے ساتھ جاری تنازع میں قطر کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر اس کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ملکوں کی جانب سے قطر کا سفارتی اور معاشی مقاطعہ اس کے محاصرے کے مترادف ہے جو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔
اتوار کو قطر کےا میر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ایرانی صدر نے واضح کیا کہ ان کا ملک اور ایرانی قوم قطر کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ایرانی خبر رساں ادارے 'اِرنا' کے مطابق ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ اگر خطے کے ممالک کے درمیان کوئی تنازع ہے تو اسے دباؤ، دھمکیوں اور پابندیوں کے ذریعے طے کرنادرست راستہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران، قطر کا ہمسایہ اور برادر ملک ہے جس کی فضائی حدود، زمینی اور سمندری راستے ہمیشہ قطر کے لیے کھلے ہیں۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین نے رواں ماہ کے اوائل میں قطر پر دہشت گردوں کی مدد کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے ساتھ تمام سفارتی، تجارتی اور معاشی روابط منقطع کردیے تھے اور اپنی بحری، زمینی اور فضائی حدود قطری طیاروں اور بحری جہازوں کے لیے بند کردی تھیں۔
سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ ہفتے قطری حکومت کو 13 مطالبات کی فہرست پیش کی تھی جس میں دوحا حکومت سے ایران کے ساتھ اپنی قریبی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
خلیجی ملکوں نے دوحا حکومت سے قطر میں واقع ترکی کا فوجی اڈہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جسے ترک حکومت مسترد کرچکی ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان نے بھی قطر میں ترک فوجی اڈے کی بندش کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چار عرب ملکوں کی جانب سے پیش کی جانے والی مطالبات کی فہرست قطر کی داخلی خودمختاری میں غیر قانونی مداخلت کے مترادف ہے۔
قطر کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ عرب ملکوں کے مطالبات کا جائزہ لے رہی ہے تاہم ساتھ ہی قطری حکام مطالبات کو غیر ضروری اور ناقابلِ عمل قرار دے چکے ہیں۔
اتوار کو استنبول میں عیدالفطر کی نماز کی ادائیگی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ قطر سے ترک فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ توہین آمیز ہے اور حالیہ تنازع میں قطر حکومت حق پر ہے۔
حالیہ تنازع کے دوران ترکی نے کھل کر قطر کی حمایت کی ہے اور ترک حکومت اب تک 100 سے زائد پروازوں کے ذریعے خوراک اور دیگر ضروری اشیا قطر بھیج چکی ہے جہاں سعودی عرب کی جانب سے زمینی سرحد کی بندش کے بعد خوراک اور تازہ پھلوں اور سبزیوں کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔
تنازع کے بعد ترک پارلیمان نے قطر میں واقع اپنے فوجی اڈے پر مزید سپاہی تعینات کرنے کی بھی منظوری دی ہے جس کے بعد ترک فوج کے دو تازہ دم دستے قطر پہنچ چکے ہیں۔
صحافیوں سے گفتگو میں ترک صدر نے بتایا کہ انہوں نے سعودی عرب کو بھی پیش کش کی تھی کہ اگر وہ چاہے تو ترکی سعودی عرب میں بھی اپنا فوجی اڈہ قائم کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ پیش کش بذاتِ خود سعودی فرمانروا کو کی تھی لیکن انہوں نے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔