سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ملکوں نے قطر کو اپنے مطالبات کی فہرست پیش کردی ہے جس میں قطر سے اپنے ٹی وی چینل 'الجزیرہ' کو بند کرنے اور ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے مطالبے شامل ہیں۔
تیرہ مطالبات پر مشتمل فہرست جمعرات کو کویت کی جانب سے قطر کو فراہم کی گئی۔ کویت، قطر اور دیگر خلیجی ملکوں کے درمیان ثالثی کی کوششیں کر رہا ہے۔
فہرست میں قطر سے عرب دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک 'اخوان المسلمون' کے ساتھ تمام تعلقات ختم کرنے اور قطر سے ترکی کے فوجی اڈے کے خاتمے کے مطالبات بھی شامل ہیں۔
امریکی اخبار رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اسے عربی میں تحریر مطالبات کی یہ فہرست تنازع میں شامل ایک ملک کے حکام نے فراہم کی ہے۔
سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے رواں ماہ کے اوائل میں قطر پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرلیے تھے۔
ان چاروں ملکوں نے قطر کے ساتھ ہر قسم کے زمینی، فضائی اور سمندری رابطے بھی معطل کردیے ہیں اور اپنی بندرگاہیں اور فضائی حدود قطر کے بحری جہازوں اور طیاروں کے لیے بند کردی ہیں۔
قطر کی حکومت دہشت گردوں کی حمایت کے الزام کی تردید کرچکی ہے اور اس کا موقف ہے کہ ان ملکوں کی جانب سے قطر پر عائد پابندیوں کے خاتمے تک وہ کوئی مذاکرات نہیں کرے گی۔
مطالبات کی فہرست میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے قطر سے ہرجانہ ادا کرنے کا بھی کہا ہے جس کی رقم بیان نہیں کی گئی۔
فہرست میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ قطر ان چاروں ملکوں کے شہریوں کو قطری شہریت نہ دے اور وہاں پہلے سے مقیم ان چاروں ملکوں کے شہریوں کو بے دخل کرے۔
سعودی عرب اور اس کے تینوں اتحادیوں نے قطر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انہیں مطلوب تمام افراد ان کے حوالے کرے اور شدت پسند تنظیموں کی مالی مدد بند کردے۔
فہرست میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ قطری حکومت سعودی عرب اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والی حزبِ اختلاف کی ان شخصیات کے متعلق بھی مکمل معلومات فراہم کرے جن کی ماضی میں قطری حکومت مدد کرتی رہی ہے۔
مطالبات کی فہرست میں قطر سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے عربی ٹی وی چینل 'الجزیرہ' اور اس کے تمام ذیلی اداروں اور شاخوں اور دیگر نشریاتی اداروں کو بند کرے۔
ایران سے متعلق مطالبے میں قطر کی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ ایران میں اپنی تمام سفارتی تنصیبات بند کرے اور اس کے ساتھ صرف اتنے ہی تجارتی تعلقات رکھے جتنا کہ ایران پر عائد امریکی پابندیوں میں گنجائش ہے۔
ان ملکوں نے قطر کو مطالبات پورے کرنے کے لیے 10 روز کا وقت دیا ہے۔
تاحال قطری حکام نے مطالبات کی اس فہرست پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا البتہ قطر کے وزیرِ خارجہ الجزیرہ کی بندش سمیت بعض دیگر مطالبات کے حوالے سے ماضی میں کئی بار واضح کرچکے ہیں کہ ایسے مطالبات کبھی پورے نہیں کیے جائیں گے۔
سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے قطر کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کرنے کےفوراً بعد قطری حکومت نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ ممالک قطر کو اپنا "باج گزار" بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو دوحا حکومت کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔
امکان ہے کہ عرب ملکوں کی جانب سے قطر کو دی جانے والی مطالبات کی فہرست سے قطر کے اس الزام کو تقویت ملے گی۔
گزشتہ ہفتے قطر کے وزیرِ خارجہ نےکہا تھا کہ ان کا ملک اپنی آزاد خارجہ پالیسی پر کسی دوسرے ملک کا ڈکٹیشن قبول نہیں کرے گا۔
گزشتہ روز امریکہ کے وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے بھی خبردار کیا تھا کہ قطر سے کیے جانے والے مطالبات "قابلِ فہم اور قابلِ عمل" ہونے چاہئیں۔