ترکی کی ایک عدالت نے منگل کے روز فیصلہ دیا ہے کہ انسانی حقوق کے چھ سرگرم کارکن، جن میں ترکی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ شامل ہیں، کو باضابطہ طور پر گرفتار کیا جائے، جنھیں ایک دہشت گرد گروہ کی امداد کے الزام میں کئی ہفتے قبل زیر حراست لیا گیا تھا۔
ابھی یہ بات واضح نہیں آیا اِن کا کس دہشت گرد تنظیم سے تعلق ہے، جس کی مدد کے شبہے کا اُن پر اظہار کیا جا رہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے، اِسے ’’تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد ترکی میں کیے جانے والی سخت کارروائی کے دوران اصولی گراوٹ کی ایک نئی مثال‘‘ اور ’’سیاسی بنیادوں پر زیادتی‘‘ قرار دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سکریٹری جنرل، سلیل شیٹی نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’آج ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ ترکی میں انسانی حقوق کے لیے لڑنا جرم بن چکا ہے‘‘۔
بقول اُن کے ’’یہ نئی سچائی ہے جو ترکی اور بین الاقوامی برادری کو درپیش ہے‘‘۔
ایمنسٹی کے ترکی کے ڈائریکٹر، عدیل اسیر، اور خواتین اتحاد سے تعلق رکھنے والی اکنور اوستن اور دیگر افراد کو پولیس نے پانچ جون کو استنبول سے زیر حراست لیا، جب وہ ایک ورکشاپ میں شریک تھیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، 28 گھنٹے تک انھیں وکیل تک رسائی نہیں دی گئی، اور اپنے اہل خانہ سے ملنے کا حق چھینا گیا۔