ترکی بھی دوسرے ملکوں کی طرح کرونا وائرس کی زد میں ہے۔ اور نامہ نگار، ڈورین جونز کی رپورٹ کے مطابق، ترکی میں اب تک اس مرض میں 1500 سے زیادہ لوگ مبتلا ہو چکے ہیں۔
اور کوئی 40 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی گئی ہے اور حکام اب تیزی سے پابندیاں بڑھا رہے ہیں۔ اسکول، عوامی تفریحات کے مقامات وغیرہ کو بند کر رہے ہیں۔ مساجد میں صرف اذانیں دی جاتی ہیں، لیکن جماعت سے نماز بند کردی گئی ہے۔ اور ملک کا بڑا شہر استنبول وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور زندگی کے نئے انداز اپنانا سیکھ رہا ہے۔
لوگ زیادہ تر گھروں تک محدود رہتے ہیں اور کبھی سنسان سڑکوں کا نظارہ کرنے کے لئے گھروں کی چھتوں یا بالکونیوں میں آ جاتے ہیں۔
انقرہ میں مقیم پاکستانی صحافی ڈاکٹر فرقان نے بتایا کہ صورت حال روز بروز سنگین ہوتی جا رہی ہے اور لاک ڈاؤن ہو چکا ہے اور عمر رسیدہ لوگوں کو گھر سے باہر نکلنے کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ملک کے بلدیاتی ادارے مستعدی سے کام کر رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے دیہاتوں تک میں لوگوں کو گھر گھر کھانا وغیرہ پہنچا رہے ہیں۔
ڈاکٹر فرقان نے مزید بتایا کہ تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند ہیں۔ لیکن تعلیم کا سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ آن لائن تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہر چند کہ مساجد میں جماعت سے نمازیں نہیں ہو رہی ہیں۔ لیکن مساجد اور علما کو عام لوگوں میں اس بیماری کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لئے بخوبی استعمال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ترکی میں بڑے بڑے اسپتال ہیں اور یہ اسپتال یوروپ میں بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے والے اسپتال مانے جاتے ہیں۔ اور حکام کا کہنا ہے کہ ہنگامی صورت حال سے نمبٹنے کے لئے اسپتال اور خاطر خواہ طبی سہولتیں اور آلات موجود ہیں۔
ڈاکٹر فرقان نے کہا کہ اس مشکل گھڑی میں حکومت اور اپوزیشن سب ایک پیج پر ہیں اور کرونا پر ترکی میں کوئی سیاست نہیں ہو رہی ہے۔
فی الحال ترکی میں کسی حد تک پبلک ٹرانسپورٹ کھلی ہوئی ہے۔ لیکن، یہ پابندی ہے کہ کسی بھی بس میں اسکی گنجائش سے آدھے مسافر ہی سفر کر سکیں گے، تاکہ مسافر ایک دوسرے سے محفوظ فاصلے پر رہ سکیں۔
اور ایسے میں جبکہ وہاں کرونا کے مریضوں اور اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لوگوں میں خطرے کے بارے میں آگاہی بھی بڑھ رہی ہے۔