ترک وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان نے قبرص کی طرف سے بحرِ روم میں گیس اور تیل کی تلاش کے معاملے میں سخت رویہ اختیار کیا ہے ۔ بدھ کے روز انھوں نے نکوسیا اور وسیع تر بین الاقوامی برادری پر ایک بار پھر تنقید کی۔’’یونانی قبرص کی طرف سے تیل کے لیے ڈرلنگ کرنا اشتعال انگیز کارروائی ہے، اور جن اداروں کا مشن یہ ہے کہ امن قائم رکھا جائے، وہ خاموش ہیں ۔ کیا مسائل اس طرح حل کیے جاتے ہیں؟ ‘‘
ترکی کا اصرار ہے کہ یونانی قبرص کی طرف سے تیل کی تلاش کا کام ترک قبرصی حکومت کے تعاون سے کیا جانا چاہیئے ، جسے صرف ترکی تسلیم کرتا ہے ۔ یورپی یونین نے اس موقف کو مسترد کر دیا ہے۔
مسٹر اردوان نے اس علاقے میں بحری جنگی جہاز بھیجنے کی دھمکی دی ہے۔ لیکن استنبول کی Bahcesehir University کے چنگیز اختر کہتے ہیں کہ ترکی کی دلچسی صرف قبرص تک محدود نہیں ہے۔’’میرے خیال میں بات صرف قبرص کی نہیں ہے ۔ اصل میں اس اقدام کا مقصد اپنی طاقت کا اظہار ہے۔ حکومت کو پورا اعتماد ہے، بلکہ کچھ زیادہ ہی اعتماد ہے اور وہ خاص طور سے مشرقی بحرِ روم میں اسرائیل کو چیلنج کرنا چاہتی ہے ۔ لیکن یہ اور بات ہے کہ انہیں یہ پتہ نہیں کہ یہ کام کیسے کیا جائے۔‘‘
انقرہ نے اپنے سابق اتحادی اسرائیل کے خلاف سفارتی جنگ شروع کر رکھی ہے کیوں کہ اسرائیل نے گذشتہ سال ان ترک کارکنوں کو ہلاک کر دیا تھا جو اسرائیل کی طرف سے غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کر رہے تھے ۔اس کے بعد، اسرائیل نے یونانی قبرص کی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر لیے ہیں ۔ گذشتہ سال اس نے یونانی قبرص کی حکومت کے ساتھ بحرِ روم میں گیس اور تیل کی تلاش کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
ترک وزارتِ خارجہ کے انڈر سیکرٹری سلیم ینیل نے تسلیم کیا کہ قبرص کے ساتھ تنازع میں اسرائیل بھی ملوث ہے۔ انھوں نے کہا’’ہم نے سنا ہے کہ ایک مشترکہ اسرائیلی اور یونانی قبرصی علاقے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بارے میں مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔ ہم اسے یکطرفہ طور پر قبول نہیں کر سکتے ۔‘‘
انقرہ کی Bilkent یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے یونانی ماہر Ioannis Grigoriadis کہتے ہیں کہ اسرائیل جیسے طاقتور اتحادی کی وجہ سے ترکی کے خلاف یونانی قبرصیوں کا حوصلہ بڑھا ہے ۔’’میرے خیال میں جنوب مشرقی بحرِ روم میں گیس کی تلاش کے کام میں وہ اسرائیلی مدد پر انحصار کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اعتماد موجود ہے کہ ترکی جنوب مشرقی بحر روم میں اسرائیل کے ساتھ ٹکر لینے کا خطرہ مول نہیں لے گا۔‘‘
فی الحال کوئی بھی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے یونانی قبرص نے دھمکی دی ہے کہ وہ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی درخواست کو ویٹو کر دے گا لیکن اس دھمکی میں کوئی وزن نہیں کیوں کہ ترکی کی درخواست پہلے ہی سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے ۔
سابق ترک سفارتکار Sinan Ulgen کہتے ہیں کہ موجودہ بحران ترکی کے نئے عزائم کی علامت ہے ۔’’ایک زمانہ تھا کہ ترکی مغربی برادری کا ایک فرماںبردار ملک تھا۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ علاقائی طاقت کے طور پر اپنی حیثیت کو منوانا چاہتا ہے۔‘‘
مسٹر اردوان نے عرب موسم بہار کی حمایت کرتے ہوئے، شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں کامیابی سے رابطے قائم کیے ہیں۔ ترک وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کا ملک، اپنے مغربی اتحادیوں کی سخت پالیسی کی تقلید کرتے ہوئے، شام کے خلاف پابندیوں پر عمل در آمد کر سکتا ہے ۔ لیکن مبصرین سوال کرتے ہیں کہ کیا مسٹر اردوان اپنے ملک کی علاقائی خارجہ پالیسی کی حدود کا پورا ادراک رکھتے ہیں۔
بہت کم لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ترکی اور قبرض کے درمیان موجودہ بحران کسی بڑے تصادم کی شکل اختیار کرے گا۔ لیکن ترکی نے سخت بیانات کے ساتھ علاقے میں اپنی بحریہ کی موجودگی میں اضافے کے جس عزم کا اظہار کیا ہے، اس کی روشنی میں یہ خطرہ اب بھی موجود ہے ۔