|
ویب ڈیسک۔۔۔ترکیہ کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کے ملک نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کے مقدمے میں شامل ہونے کی درخواست دائر کی ہے۔
ہالینڈ کے لیے ترک سفیر نے ترک قانون سازوں کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمے میں شامل ہونے کے لیے دستاویز جمع کروائی۔
اس تازہ پیش رفت میں، ترکیہ جو غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کا سخت ترین ناقد ہے، اسپین، کولمبیا، نکاراگوا، لیبیا اور فلسطینی حکام کے ساتھ شامل ہو گیا ہے ،جنہوں نے اس مقدمے میں شریک ہونے کی درخواستیں دے رکھی ہیں۔
ان درخوستوں پر عدالت کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔
وزیر خارجہ ھاکان فیدان نے مختصر پیغام رسانی کے پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ہم نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر نسل کشی کے مقدمے میں فریق بننے کے لیے درخواست بھیج دی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اپنے جرائم میں استثنا ملنے کی وجہ سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ ہر روز زیادہ سے زیادہ معصوم فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو قتل عام رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اسے اسرائیل اور اس کے حامیوں پر ضروری دباؤ ڈالنا چاہیے۔ ترکیہ اس کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اسرائیل پر قتل عام کا الزام لگاتے ہوئے اسے بین الاقوامی عدالتوں میں سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مغربی ممالک پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہیں۔
مئی میں ترکیہ نے غزہ پر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اپنی تجارت معطل کر دی تھی۔
مغربی ممالک کے برعکس جنہوں نے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے، ایردوان نے آزادی کی تحریک قرار دیتے ہوئے اس گروپ کی تعریف کی ہے۔
جنوبی افریقہ نے گزشتہ سال کے آخر میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں ایک مقدمہ دائر کیا تھا جس میں اسرائیل پر الزام لگایا تھا کہ وہ غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کے ذریعے نسل کشی کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
اسرائیل قتل عام کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزہ میں جنگ حماس کے ان عسکریت پسندوں کے خلاف ایک جائز دفاعی کارروائی ہے جنہوں نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حملہ کر کے تقریباً 1200 افراد کو ہلاک اور 250 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اگر اس کیس کو تسلیم کیا جاتا ہے تو اس میں شامل ہونے والے ملک عدالت میں اپنی تحریری گزارشات پیش کر سکیں گے اور عوامی سماعتوں میں بات کر سکیں گے۔
اسرائیل کے خلاف قتل عام کے مقدمے کی ابتدائی سماعتیں ہو چکی ہیں، تاہم خیال ہے کہ عدالت کو کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
(اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)
فورم