|
بنگلہ دیش کے وزیر اعظم یونس نے ،جنہیں صدر نے منگل کو دیر گئے طالب علم رہنماؤں کی سفارش کے بعد ملک کا سربراہ مقرر کیا تھا، کہا ہے کہ موجودہ بحران پر قابو پانے اور انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے حکومت کے باقی اراکین کی تعیناتی کو حتمی شکل دینے کی ضرورت ہے۔
طلبہ تحریک کے مرکزی رہنماؤں میں سے ایک ناہید اسلام نے صدر کے اعلان کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ طلبہ نے صدر کے ساتھ شیئر کی گئی ابتدائی فہرست میں عبوری حکومت کے لیے دس سے پندرہ ارکان کی سفارش کی ہے۔
اسلام نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ منگل کی شام سے شروع ہونے والے 24 گھنٹوں میں عبوری حکومت کے ارکان کی فہرست کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ اسلام نے کہا کہ حکومت کے لیے طلباء کی سفارشات میں سول سوسائٹی کے اراکین اور طلباء کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
عبوری حکومت اقتدار کے اس خلا کو پر کرے گی جو بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ کی جانب سے پیر کو ٹیلی وژن پر ایک خطاب میں حسینہ واجد کے استعفے کے اعلان کے بعد پیدا ہو گیا ہے۔ شیخ حسینہ ملک بھر میں ان پر تشدد مظاہروں کے بعد مستعفی اور ملک سے فرار ہوئی تھیں جن میں لگ بھگ 300 لوگ ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔
84 سالہ یونس نے بدھ کو فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ حکومت پر اعتماد کو جلد بحال کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ عبوری مدت کے بعد کوئی منتخب کردار یا تقرری نہیں چاہتے۔
ان کے ترجمان نے کہا کہ یونس پیرس میں ایک میڈیکل پروسیجر کے بعد متوقع طور پر جمعرات کو ڈھاکہ واپس آئیں گے۔
یونس نے اخبار کو بتایا کہ ہمیں پرسکون ہونے کی ضرورت ہے، ہمیں نئے انتخابات کے لیے لائحہ عمل درکار ہے اور ہمیں نئی قیادت کی تیاری کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔"
معمولات کی طرف واپسی
پیر کے ہنگاموں اور افراتفری کے بعد حالات آہستہ آہستہ معمول پر آ رہے ہیں۔ لیکن بدھ کو بنگلہ دیش بینک کے دو زرائع نے بتایا کہ ڈھاکہ میں بینک کے صدر دفتر میں اس وقت مظاہرے پھوٹ پڑے جب مرکزی بینک کے سینکڑوں اہل کاروں نے مبینہ بدعنوانی کے الزام میں اس کے چار ڈپٹی گورنرز کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔
بینک نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ڈھاکہ میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی ایک ریلی میں سینکڑوں لوگ جمع ہوئے، جس کی رہنما اور سابق وزیر اعظم 78 سالہ خالدہ ضیاء کو منگل کے روز صدر نے گھر میں نظربندی سے رہا کیا۔
اپوزیشن رہنما اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ بنگلہ دیش میں تباہی کے راستے پر نہ چلیں ۔ بیمار خالدہ ظیا نے ڈھاکہ میں ایک ریلی کے دوران ہسپتال کے بستر سے اپنے حامیوں سے خطاب میں یہ بات کہی ۔2018 کے بعد یہ ان کی پہلی عوامی تقریر تھی، جب وہ بدعنوانی کے الزامات میں سزا یافتہ تھیں اور جیل میں بند تھیں۔بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی جانب سے یہ ریلی ملک میں ایک نئے سیاسی ماحول کے درمیان ان کی نظر بندی سے رہائی کے ایک دن بعد ہوئی ہے.
پڑوسی ملک
بھارت
بھارت کے دو سرکاری ذرائع نے بتایا کہ بنگلہ دیش کے ساتھ مضبوط ثقافتی اور کاروباری تعلقات رکھنے والے بڑے پڑوسی ملک بھارت نے بنگلہ دیش کے سفارت خانے اور چار قونصل خانوں سے اپنے تمام غیر ضروری عملے اور ان کے اہل خانہ کو نکال لیا ہے۔
پاکستان
پاکستان کی وزارت خارجہ نے، مظاہرے کے شروع ہونے کے بعد بدھ کو پہلی بار تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان کی حکومت اور عوام بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں، خلوص دل سے امید کرتے ہیں کہ حالات پرامن اور تیزی کے ساتھ معمول پر واپس آئیں۔
چین
چین، جس نے کئی برسوں میں اپنے بیلٹ اینڈ روڈ کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے، کہا کہ وہ صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، "چین بنگلہ دیش کی بدلتی ہوئی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور پوری امید کرتا ہے کہ بنگلہ دیش میں تمام جماعتیں اور دھڑے متحد ہو جائیں گے اور جلد از جلد سماجی استحکام بحال کر لیں گے۔"
حسینہ نئی دہلی میں مقیم ہیں
حسینہ کے استعفیٰ ، ان کے 15 سالہ اقتدار کے خاتمے اور ملک سے فرار نے ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑا دی تھی اور ہجوموں نے اس کے بعد ان کی سرکاری رہائش گاہ پر بلا کسی رکاوٹ کے ہلہ بول دیا تھا۔
حسینہ پیر کو نئی دہلی پہنچیں اور دارالحکومت کے مضافات میں ایک محفوظ گھر میں قیام پذیر ہیں۔ بھارتی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ وہ برطانیہ کا سفر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں لیکن برطانوی ہوم آفس نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
عوامی اشتعال کی ایک وجہ معاشی بدحالی تھی۔ حسینہ کے دور میں بنگلہ دیش میں ملبوسات کے اہم شعبے میں ترقی کی وجہ سے 450 ارب ڈالر کی اس کی معیشت میں بہتری آئی تھی لیکن حالیہ برسوں میں مہنگی درآمدات، مہنگائی، بے روزگاری اور سکڑتے ہوئے ذخائر نے اسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 4.7 ارب ڈالر کا قرض لینے پر مجبور کیا۔
ریٹنگ ایجنسی، ایس اینڈ پی نے بدھ کے روز کہا، ’مظاہروں نے... اقتصادی ترقی، مالیاتی کارکردگی، اور بیرونی میٹرکس کے لیے گراوٹ کے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے۔ اگر سماجی اور سیاسی صورت حال جلد معمول پر آ گئی اور بنگلہ دیش میں نئی حکومت قائم ہو گئی تو کریڈٹ میٹرکس کو پہنچنے والے نقصان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم