رسائی کے لنکس

ترکی نے شام کے 18 فوجی رہا کر دیے


سرحد علاقے میں کارروائی کے دوران ترکی کی افواج کو شام کے عسکریت پسندوں کی مدد بھی حاصل ہے — فائل فوٹو
سرحد علاقے میں کارروائی کے دوران ترکی کی افواج کو شام کے عسکریت پسندوں کی مدد بھی حاصل ہے — فائل فوٹو

ترکی کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ شام کے شمال مشرق میں حراست میں لیے گئے 18 مبینہ سپاہیوں کی حوالگی کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ترک وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ان سپاہیوں کی حوالگی کا عمل جمعرات کے روز مکمل ہوا ہے تاہم بیان میں یہ واضح نہیں ہے کہ یہ سپاہی کس کے حوالے کیے گئے ہیں۔

ترک وزارتِ دفاع کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سپاہیوں کی حوالگی کا عمل روس کے حکام کی معاونت سے ہوا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق ترکی کی جانب سے رہا کیے گئے شامی سپاہی روس کے ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر روانہ کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جن سپاہیوں کو رہا کیا گیا ان میں زیادہ تر فوجی وردی میں ملبوس تھے جبکہ چند ایک سادہ کپڑوں میں تھے جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ زخمی تھے اسی وجہ سے وردی میں ملبوس نہیں تھے۔

خیال رہے کہ یہ معاملہ ایسے وقت سامنے آیا ہے کہ جب جمعے سے ترکی اور روس کی فورسز مشترکہ طور پر شمال مشرقی شام میں گشت کا آغاز کریں گی۔

ترک افواج سرحد کے ساتھ شام میں 30 کلو میٹر پر سیف زون بنانا چاہتی ہے جہاں شامی مہاجرین کو منتقل کیا جائے گا — فائل فوٹو
ترک افواج سرحد کے ساتھ شام میں 30 کلو میٹر پر سیف زون بنانا چاہتی ہے جہاں شامی مہاجرین کو منتقل کیا جائے گا — فائل فوٹو

ترکی کی فوج نے شام کے سرحدی علاقے میں گزشتہ ماہ آپریشن شروع کیا تھا۔ تین روز قبل ترک وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا تھا کہ شام کے علاقے راس العین سے 18 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

راس العین میں ترک افواج نے نو اکتوبر کو کارروائی کا آغاز کیا تھا جسے شام میں سرگرم حامی عسکریت پسندوں کی مدد بھی حاصل ہے۔

ترک حکام کا مؤقف ہے کہ اس آپریشن کا مقصد شام کے ساتھ سرحد پر ایک محفوظ زون کا قیام ہے جہاں شامی مہاجرین کو بسایا جائے گا۔

شام میں ترک اور روسی افواج نے جمعے سے مشترکہ گشت شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے — فائل فوٹو
شام میں ترک اور روسی افواج نے جمعے سے مشترکہ گشت شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے — فائل فوٹو

انقرہ ترکش ورکز پارٹی (پی کے کے) اور شام میں اس سے منسلک پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔

ترکی کا مؤقف ہے کہ گزشتہ 30 برسوں کے دوران یہ جماعتیں ترکی کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہی ہیں جس میں بچوں اور خواتین سمیت 40 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

دو روز قبل ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کہا تھا کہ ترکی کے پاس معلومات ہیں کہ 'وائی پی جی' نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور انہوں نے مقررہ علاقائی حدود سے انخلا نہیں کیا۔

XS
SM
MD
LG