گذشتہ چند مہینوں میں، ترکی سے ایران کو سونے کی بر آمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ اس قسم کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا سونے کی خریداری تہران کی طرف سے ان سخت اقتصادی پابندیوں کو بے اثر بنانے کی کوشش ہے جو بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس پر عائد کی گئی ہیں۔
2012 کے دوران، ترکی اور ایران کے درمیان تجارت ہر مہینے بڑھتی رہی ہے ۔ اور یہ تقریباً تمام اضافہ ایران کو سونے کی برآمدات میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے ۔ ترکی کے چیف اکانومسٹ اینان ڈمیر کہتےہیں کہ برآمدات کی رقوم اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
وہ کہتے ہیں کہ 2010 اور 2011 میں ترکی کی سونے اور زیورات کی مجموعی بر آمدات کی رقم چار اعشاریہ تین ارب ڈالر تھی ۔ اور اب ، 2012 کے پہلے چھہ مہینوں میں، ایران کو سونے کی بر آمدات کی رقم 6 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے ۔
سونے کی برآمدات میں اس غیر معمولی اضافے کی بنیادی وجہ ، وہ سخت اقتصادی پابندیاں ہیں جو ایران کے نیوکلیئر توانائی کے پروگرام کی وجہ سے اس پر عائد کی گئی ہیں اور جن کی وجہ سے ایران کی اقتصادی حالت روز بروز خراب ہو رہی ہے ۔
فرانس میں مقیم ایران کے تجزیہ کار جمشید اسدی کہتے ہیں کہ ایرا ن میں افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایرانی کرنسی کی قدر مسلسل کم ہو رہی ہے ۔ ان حالات میں عام لوگوں میں سونے کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے، اور ایرانی حکومت اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے ۔
اس سال یورپی یونین اور امریکہ نے ایران کے بنکاری کے نظام پر جو نئی پابندیاں عائد کی ہیں، انکی وجہ سے گاہکوں کے لیے ایران کی توانائی کی قیمت ادا کرنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔فنان بینک کے ماہرِ معاشیات کہتے ہیں کہ اس مشکل کا ایک حل یہ ہے کہ سونے کی شکل میں ادائیگی کر دی جائے ۔
ان کا کہناہے کہ یہ ایران کی بنکاری کے نظام پر پابندیوں کو بے اثر بنانے کا ایک طریقہ معلوم دیتا ہے ۔ ایران کو اپنی توانائی کی تجارت بیچ کے لوگوں کے ذریعے کرنی ہے کیوں کہ اس کے بنکاری کےنظام کو بقیہ دنیا سے کاٹ دیا گیاہے ۔ ایران سے توانائی درآمد کرنے والے افراد ان بیچ کے لوگوں کو ادائیگی ایسی کرنسیوں کے ذریعے کرتے ہیں جنہیں ساری دنیا میں تجارتی سودوں میں قبول کیا جاتا ہو، لیکن چونکہ بیچ کے یہ لوگ ایران کو براہ راست یہ رقوم منتقل نہیں کر سکتے، اس لیے، میرے خیال میں، ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ سونا خرید رہے ہوں اور پھر اسے ایران کو بھیج رہے ہوں۔
ترکی کے توانائی کے وزیر یانر یلدیز نے ا ن اطلاعات کی تردید کی کہ ترکی اپنی ایران سے توانائی کی بر آمدات کی قیمت سونے کی شکل میں ادا کر رہا ہے ۔ ترکی نے جب امریکی پابندیوں کی تعمیل کرنے کی کوشش کی، تو اگست میں بر آمدات میں اچانک تیزی سے اضافہ ہو گیا جب کہ جولائی میں کئی سال تک بر آمدات کافی کم رہ چکی تھیں۔
یورپی یونین نے ایران کو سونے کی بر آمد پر پابندی لگا دی ہے لیکن ترکی یورپی یونین کا رکن نہیں ہے اور وہ کہتا ہے کہ وہ ان اقدامات پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے ۔ گذشتہ مہینے، امریکی محکمۂ خارجہ کے انڈر سکریٹری ڈیوڈ کوہن نے ایران پر عائد کردہ پابندیوں پر عمل در آمد پر بات چیت کے لیے استنبول کا دورہ کیا تھا ۔
سونے کی بر آمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ، ترکی میں ایرانی کاروباری اداروں کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے ۔ ترکی کے اخبار’ٹوڈیز زمان کے کریم بالسی کہتے ہیں کہ ترکی میں گذشتہ دو برسوں میں کھلنے والے ایرانی کاروباری اداروں کی تعداد تمام یورپی ملکوں کے کاروباری اداروں سے زیادہ ہے ۔ دوسری طرف، یورپی سرمایہ کار وں کی طرف سے ترکی میں جو پیسہ لگایا جا رہا ہے، وہ ایرانی پیسے سے تقریباً 100 گنا زیادہ ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد صرف کاروبار کرنا نہیں ہے ۔
ترکی اور ایران کی سرحد مشترک ہے اور ایران کا شمار ان چند ملکوں میں ہوتا ہے جس کے شہریوں کو ترکی میں داخل ہونے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس طرح ایرانیوں کے لیے ترکی میں کاروبار قائم کرنا پُر کشش ہو جاتا ہے ۔ لیکن مبصرین اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب تہران کے خلاف پابندیاں جاری ہیں، ایرانی کاروباری اداروں کی موجودگی اور سونے کی تجارت میں زبردست اضافے کی وجہ سے برسلز اور واشنگٹن میں جانچ پڑتال کا عمل تیز ہونے کا امکان ہے ۔
2012 کے دوران، ترکی اور ایران کے درمیان تجارت ہر مہینے بڑھتی رہی ہے ۔ اور یہ تقریباً تمام اضافہ ایران کو سونے کی برآمدات میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے ۔ ترکی کے چیف اکانومسٹ اینان ڈمیر کہتےہیں کہ برآمدات کی رقوم اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
وہ کہتے ہیں کہ 2010 اور 2011 میں ترکی کی سونے اور زیورات کی مجموعی بر آمدات کی رقم چار اعشاریہ تین ارب ڈالر تھی ۔ اور اب ، 2012 کے پہلے چھہ مہینوں میں، ایران کو سونے کی بر آمدات کی رقم 6 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے ۔
سونے کی برآمدات میں اس غیر معمولی اضافے کی بنیادی وجہ ، وہ سخت اقتصادی پابندیاں ہیں جو ایران کے نیوکلیئر توانائی کے پروگرام کی وجہ سے اس پر عائد کی گئی ہیں اور جن کی وجہ سے ایران کی اقتصادی حالت روز بروز خراب ہو رہی ہے ۔
فرانس میں مقیم ایران کے تجزیہ کار جمشید اسدی کہتے ہیں کہ ایرا ن میں افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایرانی کرنسی کی قدر مسلسل کم ہو رہی ہے ۔ ان حالات میں عام لوگوں میں سونے کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے، اور ایرانی حکومت اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے ۔
اس سال یورپی یونین اور امریکہ نے ایران کے بنکاری کے نظام پر جو نئی پابندیاں عائد کی ہیں، انکی وجہ سے گاہکوں کے لیے ایران کی توانائی کی قیمت ادا کرنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔فنان بینک کے ماہرِ معاشیات کہتے ہیں کہ اس مشکل کا ایک حل یہ ہے کہ سونے کی شکل میں ادائیگی کر دی جائے ۔
ان کا کہناہے کہ یہ ایران کی بنکاری کے نظام پر پابندیوں کو بے اثر بنانے کا ایک طریقہ معلوم دیتا ہے ۔ ایران کو اپنی توانائی کی تجارت بیچ کے لوگوں کے ذریعے کرنی ہے کیوں کہ اس کے بنکاری کےنظام کو بقیہ دنیا سے کاٹ دیا گیاہے ۔ ایران سے توانائی درآمد کرنے والے افراد ان بیچ کے لوگوں کو ادائیگی ایسی کرنسیوں کے ذریعے کرتے ہیں جنہیں ساری دنیا میں تجارتی سودوں میں قبول کیا جاتا ہو، لیکن چونکہ بیچ کے یہ لوگ ایران کو براہ راست یہ رقوم منتقل نہیں کر سکتے، اس لیے، میرے خیال میں، ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ سونا خرید رہے ہوں اور پھر اسے ایران کو بھیج رہے ہوں۔
ترکی کے توانائی کے وزیر یانر یلدیز نے ا ن اطلاعات کی تردید کی کہ ترکی اپنی ایران سے توانائی کی بر آمدات کی قیمت سونے کی شکل میں ادا کر رہا ہے ۔ ترکی نے جب امریکی پابندیوں کی تعمیل کرنے کی کوشش کی، تو اگست میں بر آمدات میں اچانک تیزی سے اضافہ ہو گیا جب کہ جولائی میں کئی سال تک بر آمدات کافی کم رہ چکی تھیں۔
یورپی یونین نے ایران کو سونے کی بر آمد پر پابندی لگا دی ہے لیکن ترکی یورپی یونین کا رکن نہیں ہے اور وہ کہتا ہے کہ وہ ان اقدامات پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے ۔ گذشتہ مہینے، امریکی محکمۂ خارجہ کے انڈر سکریٹری ڈیوڈ کوہن نے ایران پر عائد کردہ پابندیوں پر عمل در آمد پر بات چیت کے لیے استنبول کا دورہ کیا تھا ۔
سونے کی بر آمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ، ترکی میں ایرانی کاروباری اداروں کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے ۔ ترکی کے اخبار’ٹوڈیز زمان کے کریم بالسی کہتے ہیں کہ ترکی میں گذشتہ دو برسوں میں کھلنے والے ایرانی کاروباری اداروں کی تعداد تمام یورپی ملکوں کے کاروباری اداروں سے زیادہ ہے ۔ دوسری طرف، یورپی سرمایہ کار وں کی طرف سے ترکی میں جو پیسہ لگایا جا رہا ہے، وہ ایرانی پیسے سے تقریباً 100 گنا زیادہ ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد صرف کاروبار کرنا نہیں ہے ۔
ترکی اور ایران کی سرحد مشترک ہے اور ایران کا شمار ان چند ملکوں میں ہوتا ہے جس کے شہریوں کو ترکی میں داخل ہونے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس طرح ایرانیوں کے لیے ترکی میں کاروبار قائم کرنا پُر کشش ہو جاتا ہے ۔ لیکن مبصرین اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب تہران کے خلاف پابندیاں جاری ہیں، ایرانی کاروباری اداروں کی موجودگی اور سونے کی تجارت میں زبردست اضافے کی وجہ سے برسلز اور واشنگٹن میں جانچ پڑتال کا عمل تیز ہونے کا امکان ہے ۔