استنبول —
گذشتہ ہفتے ترکی نے تسلیم کیا کہ اس سال سونے کی بر آمد میں اضافے کا تعلق ایران سے قدرتی گیس کی در آمد کی ادائیگیوں سے ہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہو گئی کہ تہران کے خلاف امریکہ کی قیادت میں جو پابندیاں لگائی گئی ہیں، ترکی کی طرف سے ان کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ امریکی سینیٹروں نے کہا ہے کہ وہ اس سقم کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ترکی کے وزیرِ تجارت نے انتباہ کیا ہے کہ ترکی امریکہ کے کسی نئے اقدام کا پابند نہیں ہو گا۔
ترکی کے نائب وزیرِ اعظم علی باباجان نے تسلیم کیا کہ ترکی اپنی گیس کی در آمدات کی ادائیگی سونے سے کر رہا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے انتباہ کیا ہے کہ وہ اس قسم کی ادائیگیوں کو روکنے کے لیے نئے اقدامات پر غور کر رہا ہے، لیکن ترکی کے وزیرِ معیشت ظفر کغلیان نے اس دھمکی کو مسترد کر دیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ’’امریکہ کی لگائی ہوئی پابندیوں کا تعلق امریکہ سے ہے۔ ہمارے بین الاقوامی معاہدے بہت سے ملکوں سے ہیں۔ ہم ان معاہدوں میں فریق ہیں اور ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن ہم یورپی یونین کے اقدامات کے بھی پابند نہیں ہیں کیوں کہ ہم اس کے رکن نہیں ہیں۔‘‘
روس کے بعد، ایران ترکی کو گیس فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایران کی گیس کی بر آمدات کا 90 فیصد حصہ ترکی کو جاتا ہے۔
ترکی کی قدرتی گیس کی ضرورت کا 18 فیصد حصہ اور تیل کا 51 فیصد حصہ ایران فراہم کرتا ہے۔ لیکن چونکہ امریکہ اور یورپی یونین کی عائد کردہ پابندیوں کے تحت تہران کو ان چیزوں کی قیمت کی ادائیگی ڈالر اور یورو میں کرنا ممنوع ہے، اس لیے ترکی گیس کی قیمت اپنی کرنسی یعنی ٹرکش لیرا میں ادا کرتا ہے۔ لیرا سے بین الاقوامی منڈیوں میں بہت زیادہ سامان نہیں خریدا جا سکتا لیکن یہ ترکی سے سونا خریدنے کے لیے لاجواب ہے۔ حکومت نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ وہ ایرانی تیل کی قیمت کس طرح ادا کرتی ہے۔
فرانس کے برگنڈی بزنس اسکول کے ایرانی تجزیہ کار جمشید اسدی کہتے ہیں کہ یہ انتظام دونوں ملکوں کے لیے مفید ہے۔
’’ایران کو اپنے تیل اور گیس کی قیمت وصول کرنے میں دشواری ہوتی ہے کیوں کہ مالیاتی اور بینکاری کے سودے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ ایران ترکی کو جو تیل اور گیس اور کبھی کبھی بجلی فروخت کرتا ہے، اس کے عوض اسے سونا مل جاتا ہے۔ ترکی کے لیے یہ آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور ایران کو درپیش مسئلے کا حل ہے۔‘‘
اس سال کے شروع ہی سے، ترکی کی طرف سے ایران کو سونے کی بر آمدات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ترکی کی تجارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ایرانی خریداروں کے لیے، اگست میں سونے کی شکل میں تقریباً 2 ارب ڈالر کی رقم دبئی بھیجی گئی تھی۔ لیکن فنانس بینک کے چیف اکانومسٹ عنان دمیر کہتے ہیں کہ اس رقم پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔
’’میرے خیال میں ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر آپ کو ایران سے کچھ تیل خریدنے کی اجازت دی جاتی ہے، تو پھر آپ کو اس تیل کی ادائیگی بھی کرنی پڑے گی، اور ایسا لگتا ہے کہ ادائیگی سونے کےذریعے ہو رہی ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ صرف ترکی ہی ایسا ملک نہیں ہے جہاں اس قسم کے سودے ہو رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بھارت بھی اسی قسم کے سودے کر رہا ہے ۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تہران کے خلاف روز افزوں بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود، ترکی یہ نہیں چاہتا کہ ایران سے توانائی کی درآمدات مکمل طور سے ختم کر دے، کیوں کہ اس طرح وہ اپنی گیس کی رسد کے لیے مکمل طور سے ماسکو کا دست نگر بن کر رہ جائے گا۔
گذشتہ دو برسوں سے ، تہران اور انقرہ کے درمیان تعلقات روز بروز زیادہ پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں کیوں کہ عرب دنیا میں آزادی کی تحریکوں سے خارجہ پالیسی کے اہداف میں اختلاف پیدا ہو رہا ہے۔ تازہ ترین اختلاف شام کے تنازع کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ایران شام کے صدر بشار الاسد کا حامی ہے جب کہ ترکی باغیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے جو شام کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔
ترک پارلیمینٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے ایک سابق رکن، Suat Kiniklioglu جن کا تعلق حکمراں اے کے پارٹی سے ہے، کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔
’’ شام کے مسئلے پر ایران کےساتھ پہلے سے اختلافات موجود ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایران کے ساتھ تجارت میں، سیاسی مکالمے میں اور تعلقات کی گہرائی میں، کمی ہو جائے گی۔‘‘
تجزیہ کار کہتےہیں کہ ترکی توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کر رہا ہے تاکہ ایران پر انحصار کم ہو جائے۔ برسلز اور واشنگٹن دونوں اس اقدام کی حوصلہ افزائی کریں گے کیوں کہ اس طرح ایران پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ لیکن توانائی کی فراہمی کے ذرائع تبدیل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ لہٰذا ، امکان یہی ہے کہ کچھ عرصے تک سونا تہران جاتا رہے گا۔
ترکی کے نائب وزیرِ اعظم علی باباجان نے تسلیم کیا کہ ترکی اپنی گیس کی در آمدات کی ادائیگی سونے سے کر رہا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے انتباہ کیا ہے کہ وہ اس قسم کی ادائیگیوں کو روکنے کے لیے نئے اقدامات پر غور کر رہا ہے، لیکن ترکی کے وزیرِ معیشت ظفر کغلیان نے اس دھمکی کو مسترد کر دیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ’’امریکہ کی لگائی ہوئی پابندیوں کا تعلق امریکہ سے ہے۔ ہمارے بین الاقوامی معاہدے بہت سے ملکوں سے ہیں۔ ہم ان معاہدوں میں فریق ہیں اور ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن ہم یورپی یونین کے اقدامات کے بھی پابند نہیں ہیں کیوں کہ ہم اس کے رکن نہیں ہیں۔‘‘
روس کے بعد، ایران ترکی کو گیس فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایران کی گیس کی بر آمدات کا 90 فیصد حصہ ترکی کو جاتا ہے۔
ترکی کی قدرتی گیس کی ضرورت کا 18 فیصد حصہ اور تیل کا 51 فیصد حصہ ایران فراہم کرتا ہے۔ لیکن چونکہ امریکہ اور یورپی یونین کی عائد کردہ پابندیوں کے تحت تہران کو ان چیزوں کی قیمت کی ادائیگی ڈالر اور یورو میں کرنا ممنوع ہے، اس لیے ترکی گیس کی قیمت اپنی کرنسی یعنی ٹرکش لیرا میں ادا کرتا ہے۔ لیرا سے بین الاقوامی منڈیوں میں بہت زیادہ سامان نہیں خریدا جا سکتا لیکن یہ ترکی سے سونا خریدنے کے لیے لاجواب ہے۔ حکومت نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ وہ ایرانی تیل کی قیمت کس طرح ادا کرتی ہے۔
فرانس کے برگنڈی بزنس اسکول کے ایرانی تجزیہ کار جمشید اسدی کہتے ہیں کہ یہ انتظام دونوں ملکوں کے لیے مفید ہے۔
’’ایران کو اپنے تیل اور گیس کی قیمت وصول کرنے میں دشواری ہوتی ہے کیوں کہ مالیاتی اور بینکاری کے سودے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ ایران ترکی کو جو تیل اور گیس اور کبھی کبھی بجلی فروخت کرتا ہے، اس کے عوض اسے سونا مل جاتا ہے۔ ترکی کے لیے یہ آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور ایران کو درپیش مسئلے کا حل ہے۔‘‘
اس سال کے شروع ہی سے، ترکی کی طرف سے ایران کو سونے کی بر آمدات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ترکی کی تجارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ایرانی خریداروں کے لیے، اگست میں سونے کی شکل میں تقریباً 2 ارب ڈالر کی رقم دبئی بھیجی گئی تھی۔ لیکن فنانس بینک کے چیف اکانومسٹ عنان دمیر کہتے ہیں کہ اس رقم پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔
’’میرے خیال میں ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر آپ کو ایران سے کچھ تیل خریدنے کی اجازت دی جاتی ہے، تو پھر آپ کو اس تیل کی ادائیگی بھی کرنی پڑے گی، اور ایسا لگتا ہے کہ ادائیگی سونے کےذریعے ہو رہی ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ صرف ترکی ہی ایسا ملک نہیں ہے جہاں اس قسم کے سودے ہو رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بھارت بھی اسی قسم کے سودے کر رہا ہے ۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تہران کے خلاف روز افزوں بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود، ترکی یہ نہیں چاہتا کہ ایران سے توانائی کی درآمدات مکمل طور سے ختم کر دے، کیوں کہ اس طرح وہ اپنی گیس کی رسد کے لیے مکمل طور سے ماسکو کا دست نگر بن کر رہ جائے گا۔
گذشتہ دو برسوں سے ، تہران اور انقرہ کے درمیان تعلقات روز بروز زیادہ پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں کیوں کہ عرب دنیا میں آزادی کی تحریکوں سے خارجہ پالیسی کے اہداف میں اختلاف پیدا ہو رہا ہے۔ تازہ ترین اختلاف شام کے تنازع کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ایران شام کے صدر بشار الاسد کا حامی ہے جب کہ ترکی باغیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے جو شام کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔
ترک پارلیمینٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے ایک سابق رکن، Suat Kiniklioglu جن کا تعلق حکمراں اے کے پارٹی سے ہے، کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔
’’ شام کے مسئلے پر ایران کےساتھ پہلے سے اختلافات موجود ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایران کے ساتھ تجارت میں، سیاسی مکالمے میں اور تعلقات کی گہرائی میں، کمی ہو جائے گی۔‘‘
تجزیہ کار کہتےہیں کہ ترکی توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کر رہا ہے تاکہ ایران پر انحصار کم ہو جائے۔ برسلز اور واشنگٹن دونوں اس اقدام کی حوصلہ افزائی کریں گے کیوں کہ اس طرح ایران پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ لیکن توانائی کی فراہمی کے ذرائع تبدیل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ لہٰذا ، امکان یہی ہے کہ کچھ عرصے تک سونا تہران جاتا رہے گا۔