ترک میڈیا میں ایسی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں کہ صدر عبداللہ گُل اگلے ہفتے نیو یارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران اسرائیلی صدر Shimon Peres سے ملیں گے۔ مئی میں غزہ کی طرف جانے والے امدادی بحری بیڑے پر اسرائیلی حملے کے بعد، اعلیٰ ترک اور اسرائیلی عہدے داروں کے درمیان یہ پہلی میٹنگ ہوگی۔
اسرائیلی حملے کے بعد، ترکی نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا اور اسرائیل کے سفیر کو انقرہ طلب کیا تھا۔ ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردگان نے اسرائیل پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا تھا۔ اسرائیلی حکومت نے اس الزام کی مذمت کی تھی۔
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ پر واشنگٹن کو تشویش ہے اور وہ دونوں ملکوں پر اپنے اختلافات طے کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ حال ہی میں جو سفارتی وفد واشنگٹن آیا تھا، اس میں ترک وزارتِ خارجہ کے ترجمان Selim Yenel بھی شامل تھے ۔ انھوں نے بتایا کہ ’’واشنگٹن میں قیام کے دوران ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں اس معاملے کو طے کرنا چاہیئے۔ اگر امریکہ اس سلسلے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتا ہے تو اور بھی اچھا ہوگا۔ ہم موجودہ صورت حال کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اگر ہم دوست ہیں تو کسی نہ کسی کو معذرت کرنی چاہیئے۔ ترک شہری ہلاک ہوئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ بہترین حل یہ ہو گا کہ اسرائیل معذرت کرے اور معاوضہ ادا کرے، جیسا کہ دوستوں کو کرنا چاہیئے۔ صرف اسی صورت میں ہم ماضی کو بھول سکتے ہیں‘‘۔
دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے نیم دلی سے کچھ کوششیں کی گئی ہیں۔ لیکن ترک سفارتی کالم نگار Semih Idiz کہتے ہیں کہ اسرائیل کی مخلوط حکومت کے اندر جو اختلافات ہیں وہ ان کوششوں کی راہ میں حائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’’اسرائیلی وزیرِ تجارت Benjamin Ben-Eliezer اور ہمارے وزیرِ خارجہ Ahmed Davutoglu کے درمیان ایک میٹنگ ہوئی جسے خفیہ رکھا جانا تھا۔ لیکن اسرائیلی حکومت میں بعض عناصر نے جو اس میٹنگ سے خوش نہیں تھے، اسے میڈیا کو افشا کر دیا۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے امدادی بحری بیٹرے پر حملے کے بارے میں کسی قسم کی معذرت جاری نہیں ہونے دی۔ اس مسئلے کا تعلق ترکی سے یا امریکہ سے نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل میں اندرونی سیاست بہت زیادہ الجھی ہوئی ہے‘‘۔
ترکی کی بر سرِ اقتدار جسٹس اینڈ ڈیویلپمینٹ پارٹی یعنی AKP ایک عرصے سے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے خراب سلوک ، خاص طور سے غزہ کی ناکہ بندی پر تنقید کرتی رہی ہے۔ اس تنقید سے ترکی کو عربوں کی حمایت حاصل ہوئی ہے لیکن اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات منقطع ہونے سے کئی عرب لیڈروں کو تشویش ہوئی ہے۔ ترکی کے امریکہ اور اسرائیل دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی کے رابطے عرب دنیا کے ساتھ بھی تھے۔ لیکن Kadir Has University کے Soli Ozel انتباہ کرتے ہیں کہ موجودہ بحران سے ترکی کی اس حیثیت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ان کے مطابق’’
اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات بقیہ علاقے کے لیے بھی اہم ہیں کیوں کہ اسرائیل کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کی وجہ سے ترکی بہت سی ایسی چیزیں کر سکتا تھا جو کسی اور کے لیے ممکن نہیں تھیں‘‘۔
گذشتہ جولائی میں، شام کے صدر بشر الاسد نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کے عمل میں، ترکی کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران ترکی، دمشق اور یروشلم کے درمیان مذاکرات میں ثالث کا سا کردار ادا کر رہا تھا۔ اب یہ کوششیں معطل ہو گئی ہیں کیوں کہ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ترکی کے ساتھ بات چیت کرنا نہیں چاہتی۔
امریکہ کی حمایت سے مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امن مذاکرات ایک بار پھر شروع ہو گئے ہیں۔ حماس نے ان مذاکرات کی مذمت کی ہے ۔تجزیہ کار کہتےہیں کہ اس مسئلے کے حتمی حل میں حماس کو شامل کرنے میں ترکی اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔ سفارتی کالم نگار Idiz کہتے ہیں کہ اگرچہ ترک حکومت کے حماس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں لیکن اس معاملے میں انقرہ کے رول کا انحصار اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات پر ہے۔ ترکی اور اسرائیل دونوں ملکوں میں سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات راتوں رات قائم نہیں ہوئے تھے۔ یہ تعلقات پچاس برس سے قائم ہیں۔ ترکی پہلا مسلمان ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ علاقے میں استحکام کے لیے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بہت اہم ہیں اور جلد ہی ان دونوں ملکوں کو یہ احساس ہو جائے گا کہ ان کا بہترین مفاد اختلافات کو ختم کرنے میں مضمر ہے۔