حکمران اے کے پارٹی کے حامیوں نے اپنی بے مثال فتح کا جشن منایا۔ انتخاب کے کشیدہ ماحول کے باوجود اتوار کی ووٹنگ کے بعد ووٹرز پُر سکو ن تھے اور کہہ رہے تھے کہ طیب اردگان کا انتخاب جیت لینا ترکی کے لیے بہت اچھا ہے۔ ’’اب ہمیں فوج کے آئین سے جان چھڑانی چاہیئےاور جمہوری آئین بنانا چاہیئے‘‘۔
مسٹر اردگان نے پچاس فیصد ووٹ حاصل کر لیے لیکن وہ اپنے دو تہائی ووٹوں کے ہدف سے بہت پیچھے رہ گئے۔ آئین میں تبدیلیوں کے لیے دو تہائی اکثریت ضروری تھی۔ سیاسیات کے ماہر چنگیز اختر کہتے ہیں ’’ووٹروں نے جو پیغام دیا ہے وہ بالکل واضح ہے۔ مسٹر اردگان بدستور حکومت کرتے رہیں گے لیکن انہیں ملک کو در پیش مسئلے یعنی آئین اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے حزبِ اختلاف سے مشورہ کرنا ہوگا‘‘۔
پارلیمینٹ میں 325 نشستوں کے ساتھ مسٹر اردگان کو آئین میں اصلاحات کی تجویز ریفرینڈم میں پیش کرنے کے لیے پانچ مزید ووٹ درکار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے کم از کم ایک اور پارٹی کی حمایت چاہیئے۔ انتخاب جیتنے کے بعد اپنے حامیوں کو خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے اپنا روایتی جارحانہ انداز ترک کر دیا اور اتفاقِ رائے کی بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم حزبِ اختلاف کے ساتھ اتفاقِ رائے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ہم پارلیمینٹ کے باہر حکومت کی مخالف پارٹیوں، میڈیا، غیر سرکاری تنظیموں، علمی شخصیتوں، سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں گے‘‘۔
اتفاقِ رائے کی بنیاد موجود ہے۔ حزبِ اختلاف کی دونوں پارٹیاں، پیپلز ریپبلیکن پارٹی یا (سی ایچ پی) اور ملک کی کرد نواز پیس اینڈ ڈیموکریسی پارٹی 1982 کے آئین کو جسے ملک کے فوجی حکمرانوں نے تحریر کیا تھا تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن تبدیلیاں کیا ہوں، اس بارے میں اختلاف ہے ۔ سیاسیات کے ماہر چنگیز اختر کہتے ہیں ’’وہ یہ دوسری بار کہہ رہے ہیں۔ بلکہ 2007 میں انھوں نے جو تقریر کی تھی وہ اس سے بھی زیادہ لبرل تھی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ کوئی اقدام کرنا سو فیصد ان کے ہاتھوں میں ہے‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم اور اس وقت کی حزب اختلاف کی پیپلز ریپبلیکن پارٹی کے لیڈر کے درمیان رسہ کشی کی وجہ سے آئینی اصلاحات پیش نہیں کی جا سکی تھیں لیکن ترکی کی ریسرچ فرم Edam کے Sinan Ulgen کہتے ہیں کہ اگر مسٹر اردگان اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں تو انہیں ایسا پارٹنر مل سکتا ہے جو تعاون کے لیے تیار ہو گا۔
فرق یہ ہے کہ اب سی ایچ پی کی قیادت تبدیل ہو چکی ہے۔ نئے لیڈر نے کہیں زیادہ لچکدار انداز اختیار کیا ہے اور اے کے پی کو آئینی ترامیم کے لیے اب ترک پارلیمینٹ میں زیادہ تعمیر ی اندازِ فکر رکھنے والی حزبِ اختلاف ملے گی۔ غیر یقینی کی کیفیت اب کردش دھڑے کے بارے میں ہے جس کا تعلق بی ڈی پی سے ہے کیوں اصل میں انتخاب جیتنے والی دوسری پارٹی وہی ہے۔
کردوں کی حامی نے اپنی نمائندگی 20 نشستوں سے بڑھا کر 36 کر لی ہے اور یہ وہ نشستیں ہیں جو پہلے اے کے پی کے پاس تھیں۔ اس کامیابی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بی ڈی پی ترک مملکت اور کردباغی گروپ پی کے کے، کے درمیان جاری تنازعہ ختم کرانے کے لیے وزیرِ اعظم پر زیادہ دباؤ ڈال سکے گی۔ وزیرِ اعظم کا صحیح معنوں میں امتحان یہ ہو گا کہ وہ دونوں پارٹیوں کے درمیان، ذاتی اور سیاسی اختلافات کو کس حد تک ختم کر سکتےہیں۔