واشنگٹن —
ترکی اور کردستان ورکرز پارٹی یا ’پی کے کے‘ کے درمیان بات چیت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے لیکن اس کے نتیجے میں ایسے مذاکرات ہو سکتے ہیں جن سے تین عشروں کی خونریزی ختم ہو جائے۔
’پی کے کے‘کے اسیر لیڈر عبداللہ اوکالان نے جنگ بندی اور ترکی سے ’پی کے کے‘ کے مسلح عسکریت پسندوں کی واپسی کے لیے کہا ہے۔ اس تنازع کو ختم کرنے کی کوششیں پہلے بھی کی جا چکی ہیں لیکن اس بار امن قائم ہونے کے امکانات روشن معلوم ہوتے ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان اور ’پی کے کے‘ کے لیڈر عبداللہ اوکالان دونوں کی خواہش ہے کہ یہ جھگڑا طے پا جائے۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی میں ٹرکش ریسرچ پروگرام کے سربراہ سونر سونر کاگاپٹے کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم اردوان کے وسیع سیاسی عزائم ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کردوں اور ترکوں کے درمیان تنازع ختم ہو جائے۔
’’وہ صدر بننا چاہتے ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی اور تشدد سب سے بڑا مسئلہ نہ بنا رہے کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو وہ کسی طرح بھی صدر منتخب نہیں ہو سکیں گے۔‘‘
کاگاپٹے کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم یہ بھی چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر ترکی کا مقام بلند ہو جائے۔ اس وجہ سے بھی وہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے یہ تنازعہ طے ہو جائے۔ کاگاپٹے کہتے ہیں ’’وہ ترکی کو ایک علاقائی طاقت بنانا چاہتے ہیں ۔ میرے خیال میں وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ اگر ترکی مسلسل اس جھگڑے میں الجھا رہا تو وہ ترقی نہیں کر سکے گا اور علاقائی طاقت نہیں بن سکے گا۔‘‘
سنٹر فار امریکن پراگریس کے تجزیہ کار مٹ ڈس اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسٹر اردوان اور اوکالان دونوں کا فائدہ اسی میں ہے کہ یہ جھگڑا طے ہو جائے۔
ڈس مزید کہتے ہیں کہ انقرہ 2020 کے اولمپکس کی میزبانی کرنا چاہتا ہے اور اس کی یہ خواہش دونوں فریقوں کے لیے امن کی تلاش کا محرک بن سکتی ہے۔ ’’ترکی اولمپک کھیلوں کے لیے سخت کوشش کر رہا ہے، اور وہ جانتا ہے کہ دوسرے مسائل کے ساتھ، کردش مسئلے سے ان کے امکانات کو نقصان پہنچتا ہے، اور اگر وہ اس مسئلے کو حل کر لیں، تو ان کی کامیابی کے امکانات روشن ہو جائیں گے ۔ لہٰذا میں تو یہی کہوں گا کہ اوکالان خاصے دانشمند آدمی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مسئلے کے حل کے لیے یہ بڑا اچھا موقع ہے۔‘‘
ڈس کہتے ہیں کہ وہ محتاط انداز میں پُر امید ہیں کہ ’پی کے کے‘ اور ترک حکومت کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہوگی۔
وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کی پیش رفت سے کردوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے جو ہمسایہ ملکوں، ایران ، عراق اور شام میں اپنی قومی شناخت کی جد وجہد کر رہے ہیں۔ ’’گزشتہ ایک یا ڈیڑھ صدی میں مشرقِ وسطیٰ میں جو مختلف قسم کے جوڑ توڑ ہوتے رہے ہیں، ان میں کردوں کو مسلسل نقصان ہی پہنچتا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا نسلی گروپ ہے جو ان بہت سے ملکوں کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔‘‘
اگرچہ کرد اس علاقے کے بیشتر حصے میں جد وجہد کرتے رہے ہیں، لیکن عراق میں ان کی حالت بہتر ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ ترکی کو تیل کی در آمد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اس نے شمالی عراق میں کردستان کی علاقائی حکومت سے تعلقات قائم کیے ہیں۔
کاگاپٹے کہتے ہیں کہ عراق میں کردوں کے تیل کی دولت سے مالا مال اور بڑی حد تک خود مختار علاقے سے ترکی کے تجارتی تعلقات اس بات کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں کہ وہ ملک کے اندر اور علاقے کے دوسرے ملکوں میں بھی کردوں سے اپنے تعلقات بہتر بنائے۔
’’اگر ترکی ،عراق کے کردوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے بعد، خود اپنے کردوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر لیتا ہے، اور اب شام میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تو یہ ترکی کے لیے شام کے کردوں کے ساتھ بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔‘‘
اس مہینے کے شروع میں، ترکی نے ایک اور اشارہ دیا کہ وہ وہ کردوں کے ساتھ اپنا جھگڑا ختم کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہے۔
حکومت نے عقل مند لوگوں کی ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ یہ کمیٹی مختلف پس منظر والے60 سے زیادہ افراد پر مشتمل ہے۔
اس کمیٹی کے ارکان پورے ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ حکومت اور پی کے کے باغیوں کے درمیان لڑائی ختم ہو جائے جو 1980 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں شروع ہوئی تھی ۔ اس تنازع میں تقریباً 40,000 افراد ہلاک ہو چکے ہں۔
پی کے کے نے شروع میں ایک آزاد کردش مملکت کا مطالبہ کیا تھا، لیکن بعد میں اس نے اپنے مقاصد محدود کر لیے اور کردوں کے لیے زیادہ خودمختاری اور ثقافتی حقوق مانگنے شروع کر دیے ۔
ترکی کی حکومت نے کردوں کے بعض مطالبات مان لیے ہیں۔ مسٹر اردوان کی انتظامیہ نے بعض اقدامات کی منظوری دے دی ہے جن میں زبان کے نئے حقوق اور کردش زبان کے ٹیلیویژن اسٹیشن کا قیام شامل ہے۔
تا ہم، ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان چھوٹے چھوٹے اقدامات اور ’پی کے کے‘ کے لیڈر اوکالان کی طرف سے ملنے والے نئے اشاروں سے ترکی اور اسکی کردش آبادی کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے گی یا نہیں۔
’پی کے کے‘کے اسیر لیڈر عبداللہ اوکالان نے جنگ بندی اور ترکی سے ’پی کے کے‘ کے مسلح عسکریت پسندوں کی واپسی کے لیے کہا ہے۔ اس تنازع کو ختم کرنے کی کوششیں پہلے بھی کی جا چکی ہیں لیکن اس بار امن قائم ہونے کے امکانات روشن معلوم ہوتے ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان اور ’پی کے کے‘ کے لیڈر عبداللہ اوکالان دونوں کی خواہش ہے کہ یہ جھگڑا طے پا جائے۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی میں ٹرکش ریسرچ پروگرام کے سربراہ سونر سونر کاگاپٹے کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم اردوان کے وسیع سیاسی عزائم ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کردوں اور ترکوں کے درمیان تنازع ختم ہو جائے۔
’’وہ صدر بننا چاہتے ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی اور تشدد سب سے بڑا مسئلہ نہ بنا رہے کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو وہ کسی طرح بھی صدر منتخب نہیں ہو سکیں گے۔‘‘
کاگاپٹے کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم یہ بھی چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر ترکی کا مقام بلند ہو جائے۔ اس وجہ سے بھی وہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے یہ تنازعہ طے ہو جائے۔ کاگاپٹے کہتے ہیں ’’وہ ترکی کو ایک علاقائی طاقت بنانا چاہتے ہیں ۔ میرے خیال میں وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ اگر ترکی مسلسل اس جھگڑے میں الجھا رہا تو وہ ترقی نہیں کر سکے گا اور علاقائی طاقت نہیں بن سکے گا۔‘‘
سنٹر فار امریکن پراگریس کے تجزیہ کار مٹ ڈس اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسٹر اردوان اور اوکالان دونوں کا فائدہ اسی میں ہے کہ یہ جھگڑا طے ہو جائے۔
ڈس مزید کہتے ہیں کہ انقرہ 2020 کے اولمپکس کی میزبانی کرنا چاہتا ہے اور اس کی یہ خواہش دونوں فریقوں کے لیے امن کی تلاش کا محرک بن سکتی ہے۔ ’’ترکی اولمپک کھیلوں کے لیے سخت کوشش کر رہا ہے، اور وہ جانتا ہے کہ دوسرے مسائل کے ساتھ، کردش مسئلے سے ان کے امکانات کو نقصان پہنچتا ہے، اور اگر وہ اس مسئلے کو حل کر لیں، تو ان کی کامیابی کے امکانات روشن ہو جائیں گے ۔ لہٰذا میں تو یہی کہوں گا کہ اوکالان خاصے دانشمند آدمی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مسئلے کے حل کے لیے یہ بڑا اچھا موقع ہے۔‘‘
ڈس کہتے ہیں کہ وہ محتاط انداز میں پُر امید ہیں کہ ’پی کے کے‘ اور ترک حکومت کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہوگی۔
وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کی پیش رفت سے کردوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے جو ہمسایہ ملکوں، ایران ، عراق اور شام میں اپنی قومی شناخت کی جد وجہد کر رہے ہیں۔ ’’گزشتہ ایک یا ڈیڑھ صدی میں مشرقِ وسطیٰ میں جو مختلف قسم کے جوڑ توڑ ہوتے رہے ہیں، ان میں کردوں کو مسلسل نقصان ہی پہنچتا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا نسلی گروپ ہے جو ان بہت سے ملکوں کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔‘‘
اگرچہ کرد اس علاقے کے بیشتر حصے میں جد وجہد کرتے رہے ہیں، لیکن عراق میں ان کی حالت بہتر ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ ترکی کو تیل کی در آمد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اس نے شمالی عراق میں کردستان کی علاقائی حکومت سے تعلقات قائم کیے ہیں۔
کاگاپٹے کہتے ہیں کہ عراق میں کردوں کے تیل کی دولت سے مالا مال اور بڑی حد تک خود مختار علاقے سے ترکی کے تجارتی تعلقات اس بات کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں کہ وہ ملک کے اندر اور علاقے کے دوسرے ملکوں میں بھی کردوں سے اپنے تعلقات بہتر بنائے۔
’’اگر ترکی ،عراق کے کردوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے بعد، خود اپنے کردوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر لیتا ہے، اور اب شام میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تو یہ ترکی کے لیے شام کے کردوں کے ساتھ بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔‘‘
اس مہینے کے شروع میں، ترکی نے ایک اور اشارہ دیا کہ وہ وہ کردوں کے ساتھ اپنا جھگڑا ختم کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہے۔
حکومت نے عقل مند لوگوں کی ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ یہ کمیٹی مختلف پس منظر والے60 سے زیادہ افراد پر مشتمل ہے۔
اس کمیٹی کے ارکان پورے ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ حکومت اور پی کے کے باغیوں کے درمیان لڑائی ختم ہو جائے جو 1980 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں شروع ہوئی تھی ۔ اس تنازع میں تقریباً 40,000 افراد ہلاک ہو چکے ہں۔
پی کے کے نے شروع میں ایک آزاد کردش مملکت کا مطالبہ کیا تھا، لیکن بعد میں اس نے اپنے مقاصد محدود کر لیے اور کردوں کے لیے زیادہ خودمختاری اور ثقافتی حقوق مانگنے شروع کر دیے ۔
ترکی کی حکومت نے کردوں کے بعض مطالبات مان لیے ہیں۔ مسٹر اردوان کی انتظامیہ نے بعض اقدامات کی منظوری دے دی ہے جن میں زبان کے نئے حقوق اور کردش زبان کے ٹیلیویژن اسٹیشن کا قیام شامل ہے۔
تا ہم، ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان چھوٹے چھوٹے اقدامات اور ’پی کے کے‘ کے لیڈر اوکالان کی طرف سے ملنے والے نئے اشاروں سے ترکی اور اسکی کردش آبادی کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے گی یا نہیں۔