رسائی کے لنکس

پیرس میں کرد باغیوں کا قتل اور ترکی-کرد مذاکرات


ہلاکتوں پر کرد افراد کا مظاہرہ
ہلاکتوں پر کرد افراد کا مظاہرہ

ماہرین کے اندازے کے مطابق، ترکی میں 2,500 پی کے کے باغی موجود ہیں اور بقیہ ہمسایہ شمالی عراق میں مقیم ہیں ۔

ترکی میں کرد اور ترک سیاستداں دونوں یہی کہہ رہے ہیں کہ پیرس میں تین سرگرم کرد باغیوں کی ہلاکت سے وہ کوششیں متاثر نہیں ہونی چاہئیں جو باغی گروپ ’پی کے کے‘ اور ترک حکومت کے درمیان کئی عشروں سے جاری قضیے کو ختم کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کوششوں میں اہم مثبت پیش رفت ہو چکی ہے۔

کرد اور ترک سیاست دانوں کے درمیان اس بات پر تو اختلاف ہے کہ جمعرات کو پیرس میں سرگرم کرد کارکنوں کی ہلاکت کا ذمہ دار کون ہے، لیکن وہ اس نکتے پر متفق ہیں کہ قتل کی اس واردات سے حکومت کی اس کوشش کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیئے جو وہ کردستان ورکرز پارٹی یا ’پی کے کے‘ کے ساتھ تقریباً تین عشروں سے جاری جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے کر رہی ہے۔

Bahcesehir یونیورسٹی میں سیاسیات کے ماہر چنگیز اختر کہتے ہیں کہ امن کے لیے ماضی میں کی جانے والی ناکام کوششوں کے بر خلاف، اس بار ایسا لگتا ہے کہ ان کوششوں کی بڑے پیمانے پر حمایت کی جا رہی ہے۔’’امن مذاکرات کے لیے شاید تمام جماعتیں متحد ہو گئی ہیں۔ ایم ایچ پی اور ایک انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کو چھوڑ کر، دنیائے سیاست میں مکمل اتفاقِ رائے موجود ہے اور نا کہنے والے یعنی جنگ کی نام نہاد لابی، روز بروز مختصر ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

حالیہ ہفتوں میں، ترکی کی حکومت نے تصدیق کی کہ اس کے انٹیلی جنس کے سربراہ حقان فدان کردستان ورکرز پارٹی کے مقید لیڈر عبداللہ اوکالان سے ملے ہیں ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق، ان مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے ۔

مبصرین کہتے ہیں کہ پیش رفت کی ایک علامت یہ ہے کہ حکام نے دو سینیئر کردش سیاست دانوں کو اوکالان سے ملنے کی اجازت دی ہے ۔

ترکی میں کردوں کی سب سے بڑی قانونی پارٹی بی ڈی پی نے بھی اوکالان سے ملاقات کی درخواست کی ہے۔ لیکن دائیں بازو کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی دی ایم ایچ پی کے پارلیمانی لیڈر نے ان کوششوں کی مذمت کی اور وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان پر الزام لگایا کہ انھوں نے دہشت گردی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

ان الزامات کا یہ اثر ہوا کہ اس ہفتے مسٹر اردوان نے باغیوں کے لیے عام معافی کو مسترد کر دیا اور مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر غیر مسلح ہو جائیں۔ ’’ ہمارے خلوص کا ثبوت وہ اقدامات ہیں جو ہم نے گذشتہ چند دنوں میں کیے ہیں ۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لو گ ترکی چھوڑ دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان سے ہتھیار رکھوا لیں اور پھر وہ ترکی چھوڑ دیں ۔‘‘

سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ کرد باغی جتنے مضبوط اب ہیں ، پچھلے دس برسوں میں نہیں تھے۔ اس لیے یہ مطالبہ غیر حقیقت پسندانہ ہے ۔ استنبول میں قائم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ایدام کے سینان الغن کہتے ہیں کہ ہتھیار ڈالنا ، اس پورے عمل کا حصہ ہو گا۔ ’’اولین اقدامات میں سے ایک اقدام یہ ہوگا کہ پی کے کے اپنے ہتھیار ڈال دے ۔ لیکن یہ اقدام ایک پیکیج کا حصہ ہوگا جس کے تمام مرحلے پہلے سے واضح کر دیے جائیں گے۔‘‘

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان اقدامات میں تعلیم اور انتظامیہ کے شعبوں میں کردوں کے حقوق درج کرنا شامل ہو گا ۔یہ حقوق ایک نئے آئین میں درج کیے جائیں گے جوآج کل قانون ساز تحریر کر رہے ہیں۔

کردوں کی حامی بی ڈی پی کے ایک رکنِ پارلیمینٹ ارتغرال کرککو نے وزیرِ اعظم کی قیامِ امن کی کوشش کا خیر مقدم کیا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کی پریشانی یہ ہے کہ کیا وہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر قائم رہیں گے۔’’طیب اردوان کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ وہ حکومت میں سب سے زیادہ نا قابلِ اعتبار فرد ہیں ۔ اس وقت مملکتِ ترکی میں ان سے زیادہ ناقابلِ اعتبار شخص اور کوئی نہیں۔‘‘

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان مذاکرات کی کامیابی کےلیے صبر و تحمل سے کام لینا انتہائی ضروری ہو گا۔ لیکن سیاسیات کے ماہر اختر کہتے ہیں کہ ملک میں اگلے سال انتخابات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا جو دو برس تک جاری رہے گا۔ یہ بات اہم ہے کہ اس معاملے میں کچھ پیش رفت ہو، خاص طور سے اس لیے بھی کہ موسمِ بہار شروع ہونے میں چند مہینے ہی باقی رہ گئے ہیں۔

’’اہم بات یہ ہے کہ انتخابات سے ایک سال پہلے ایسی ٹھوس کارکردگی دکھائی جائے جو سب کو نظر آئے۔ میرے خیال میں ان مذاکرات کا ایک اہم مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ’پی کے کے‘ کے جنگجو ترکی کے علاقے کو چھوڑ دیں گے تاکہ جب برف پگھلنا شروع ہو جائے ، تو وہ کوئی فوجی کارروائی نہ کر سکیں ۔‘‘

ماہرین کے اندازے کے مطابق، ترکی میں 2,500 پی کے کے باغی موجود ہیں اور بقیہ ہمسایہ شمالی عراق میں مقیم ہیں ۔

چونکہ اس علاقے میں برفباری بہت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے سردیوں میں عموماً لڑائی ٹھنڈی پڑ جاتی ہے ۔ لیکن بہار کے آغاز کے ساتھ ہی، لڑائی میں تیزی آ جاتی ہے، اور مبصرین کہتے ہیں کہ سردیوں کی برف پگھلنے سے پہلے ، دونوں فریق کچھ کامیابیاں حاصل کرنا چاہیں گے۔
XS
SM
MD
LG