نیٹو سکریٹری جنرل اور امریکی اہل کار اس وقت ترکی میں ہیں جہاں وہ دولت اسلامیہ کی شدت پسندوں سے لڑنے کے لیے رابطوں کو ترتیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسے میں جب ترکی پر شامی سرحد کے ساتھ کوبانی کے شہر کے معاملے پر دباؤ بڑھ رہا ہے، جو شدت پسندوں کے محاصرے میں ہے۔
استنبول سے ڈورین جونز کی رپورٹوں کے مطابق، ترکی کا کہنا ہے کہ وہ شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف یکطرفہ طور پر زمینی کارروائی نہیں کرسکتا۔
نیٹو کے سکریٹری جنرل، جینس اسٹولٹن برگ دو روز تک ترکی کی سیاسی قیادت سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ مذاکرات ایسے وقت ہو رہے ہیں جب ترکی کی سرحد کے ساتھ کوبانی کے شہر کو داعش کے شدت پسندوں کے ہاتھوں شکست کا خطرہ لاحق ہے، جو کئی ہفتوں سے کرد جنگجوؤں کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
ترک وزیر خارجہ، میلوت کاسوگلو کے ہمراہ ایک اخباری کانفرنس میں، اسٹولٹن برگ نے وعدہ کیا کہ دولت اسلامیہ کی طرف سے نیٹو رکن ملک پر براہِ راست حملے کی صورت میں، نیٹو ترکی کی حمایت کرے گا۔
اسٹولٹن برگ کے بقول، تمام اتحادیوں کی سلامتی کے دفاع کے لیے نیٹو ہمہ تن تیار ہے۔ کئی عشروں سے ترکی ایک پختہ اتحادی رہا ہے جو ہمارے مشترکہ دفاع اور علاقے کے استحکام کے ضمن میں حصہ لیتا رہا ہے۔
تاہم، اِن یقین دہانیوں کے باوجود، کاسوگلونے کرد جنگجوؤں کی حمایت میں کوبانی میں کسی یکطرفہ فوجی اقدام کے امکان کو مسترد کیا ہے۔
کاسوگلو کے بقول، ’یہ توقعات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں کہ ترکی اپنے طور پر زمینی کارروائی کرے‘۔
اس وقت ترک حکومت شدت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائی کے لیے اپنے ہوائی اڈے کھولنے سے انکار کر رہا ہے۔ یہ مؤقف، مبصرین کے مطابق، واشنگٹن میں تشویش اور مایوسی کا باعث بنا ہوا ہے۔
داعش کے خلاف اتحاد کے رابطہ کار، رٹائرڈ جنرل جان ایلن ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد کی قیادت کررہے ہیں، جو ترکی کی طرف سے اتحاد کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنےکے سلسلے میں اِس وقت ترک قیادت سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔