کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کا نظام یقینی بنانے کے لیے ترکی اور قطر نے طالبان حکومت کے ساتھ ایک سمجھوتا طے کرلیا ہے۔ ترک سفارتی ذرائع نے طالبان حکومت کے ساتھ جاری بات چیت کے بارے میں جمعرات کو بتایا کہ اگر انھیں باضابطہ طور پر یہ ذمہ داری دی جاتی ہے تو وہ مستعدی کے ساتھ کام کرکے دکھائیں گے۔
کابل کا بین الاقوامی ہوائی اڈا چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے، جہاں سے پروازیں اڑان بھرتی اور اترتی ہیں۔ اگست میں سخت گیر اسلام نواز طالبان کی جانب سے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد ترکی نے کہا تھا کہ قطر سے مل کر ہوائی اڈے کی نقل و حرکت کا کام پھر سے شروع کیا جا سکتا ہے، لیکن اس سلسلے میں سیکیورٹی کے متعلق اس کے مطالبات مانے جانے چاہئیں۔
خبررساں ادارے، رائٹرز نے خبر دی ہے کہ ایئرپورٹ کو قابل استعمال بنانے کے لیے متحدہ عرب امارات بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتا رہا ہے۔
ذرائع نے جمعرات کو اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ہوائی اڈے کا انتظامی طریقہ کار سنبھالنے کے لیے، ترکی اور قطر نے سیکیورٹی کےمرتب کردہ فریم ورک پرآمادگی کا اظہار کیا ہے؛ ساتھ ہی بتایا ہے کہ مالی اخراجات سے منسلک دیگر معاملات کو طے کرنے کے لیے مزید مذاکرات جاری ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اہل کار نے بتایا کہ '' ایئرپورٹ کے بیرونی علاقے کی سیکیورٹی کا کام طالبان کے حوالے ہوگا، جب کہ ہوائی اڈے کے اندرونی رقبے کے معاملات چلانا ہمارا ذمہ ہوگا''۔ اسی ذریعے نےمزید بتایا کہ'' اس تجویز پر تعمیری انداز سے گفتگو کا عمل جاری ہے''۔
ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اس معاملے پر ترک اور قطری وفود اس ہفتے کابل میں مزید بات چیت کریں گے۔
قطر کے سرکاری نگرانی میں کام کرنے والے خبررساں ادارے، 'کیو این اے' نے بتایا ہے کہ طالبان حکومت کے اہل کار آئندہ ہفتے دوحہ کا دورہ کریں گے جس میں ہوائی اڈے کے انتظام اورنقل و حرکت کے کام پر قطر اور ترکی کے ساتھ بات چیت کو آخری شکل دی جائے گی۔
خبر میں مزید کہا گیا ہے کہ قطر اور ترکی کے وفود نے اس ہفتے کابل میں دو روز تک ایئرپورٹ کے کنٹرول کے حوالے سے تند و تیز مذاکرات کئے ہیں۔
اگست میں امریکی افواج کے انخلا کے مشکل دنوں کے دوران قطر نے ترکی کے ساتھ مل کر کابل ایئرپورٹ کا انتظام سنبھانے کا اہم کام انجام دیا تھا۔ قطر کا کہنا ہے کہ ترکی، قطر اور طالبان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جاری مذاکرات اگلے ہفتےمکمل کیے جائیں گے۔
ستمبر سے اب تک قطر نے دوحہ اور کابل کے درمیان طیاروں کی پروازیں بروقت چلانے کے انتظام کو خیر و خوبی سے سرانجام دیا ہے، جس کے نتیجے میں بیرونی دنیا کے افغانستان سے رابطے استوار ہوئے ہیں اور ان کی طالبان حکومت سے ملاقاتیں ممکن ہوئی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ملکوں نے اپنے سفارت خانے افغانستان سے قطر منتقل کر دیے ہیں۔
بدھ کے روز ترک صدر رجب طیب ایردوان نے تاریخ کا تعین کیے بغیر بتایا تھا کہ ترکی افغانستان کی ہنگامی امداد کے لیے 700 ٹن ضروری اشیا کی رسد روانہ کر رہا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے مواد خبررساں ادارے رائٹرز سے لیا گیا ہے)