شامی حکومت نے حالیہ چند روز کے دوران میں ترکی کی سرحد سے منسلک صوبے ادلب میں مخالفین کے خلاف بڑی کاروائیاں کی ہیں جس کے بعد ترکی کی سرحد پار کرنے والے شامی پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ وہ تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی آمد کے پیشِ نظر دو نئے کیمپ تیار کر رہے ہیں جب کہ شام میں خانہ جنگی کے آغاز کی صورت میں ترکی کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کے سیلاب سے نبٹنے کے لیے بھی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
ان میں سے ایک کیمپ کو 'اصلاحیہ ' کا نام دیا گیا ہے جو ترک-شام سرحد سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک متروکہ سگریٹ فیکٹری میں قائم کیا گیا ہے۔
متاثرین کا دوسرا کیمپ نسبتاً بڑا اور مستحکم ہے جہاں اب تک ترکی پہنچنے والے 17 ہزار شامی باشندوں کی ایک بڑی اکثریت کو خیمو ں کے بجائے نسبتاً محفوظ اور آرام دہ کنٹینروں میں ٹہرایا جائے گا۔
لیکن، شام کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے باعث ترکی میں آنے والے پناہ گزین اب کسی ایک علاقے تک محدود نہیں رہے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان موجود تمام سرحدی راستوں پہ سرحد پار کرنے کے خواہش مندوں کا ہجوم ہے۔
لیکن، پناہ گزینوں کے اس ہجوم سے دور عابدین نامی گائوں کے نزدیک قائم کیا گیا ایک کیمپ ایسا بھی ہے جسے ترک حکام ذرائع ابلاغ کی نظروں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کیمپ میں شامی افواج کے وہ فوجی افسران مقیم ہیں جنہوں نے صدر بشار الاسد کی فوج سے بغاوت کرنے کے بعد سرحد پار کرکے ترکی میں پناہ لے رکھی ہے۔
اس پوری صورتِ حال کا الم ناک پہلو یہ ہے کہ پناہ گزینوں کی اکثریت کم سنی کے اس دور سے گزر رہی ہے جہاں ان کے لیے یہ سمجھنا ہی مشکل ہے کہ درحقیقت وہ کیوں اس صورتِ حال کا شکار ہوئے ہیں۔
لیکن،ان تمام ننھے پناہ گزینوں کوایک چیزخوب آتی ہے، اوروہ ہے صدر بشارالاسد کے خلاف نعرے بازی!