شام میں حزب اختلاف کے مضبوط گڑھ ادلپ پر سرکاری فورسز کی پکڑ دھکڑ کے نتیجے میں ہفتے کے روز سے سینکڑوں پناہ گزین سرحد عبور کرکے شام سے ترکی میں داخل ہوچکے ہیں جس پر ترک حکومت فکر مند ہے۔
انقرہ کا کہناہے کہ وہ جنگ سے فرار ہوکر آنے والے شامی باشندوں کا خیر مقدم کررہاہے۔ ترک عہدے داروں کے مطابق ان کا ملک اس وقت 12 ہزار سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی کررہاہے۔
لیکن ترک عہدے داروں کا کہناہے ان کی حکومت شام سے بڑے پیمانے پر انخلا کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
انقرہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے چین اور روس کے ویٹو کے باعث شام کے خلاف سخت موقف اختیار کرسکنے کی وجہ سے تشویش میں ہے۔
ترکی اس وقت شام میں منحرفین کے خلاف جاری سرکاری کارروائیوں کو روکنے کے لیے ایک بین الاقوامی اتحاد بنانے کی کوشش کررہاہے اور وہ شام کی حزب اختلاف کی مدد کرنے والے فرینڈز آف سیریا نامی اتحاد کی بھی بھرپور حمایت کررہاہے جس میں 70 سے زیادہ ممالک شامل ہیں۔ اس ماہ کے آخر میں ترکی اس گروپ کے ایک اجلاس کی میزبانی بھی کرنے والا ہے۔
اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کے شام کے ناکام دورے کے بعد خبروں کے مطابق سرکاری فورسز نے ترک سرحدوں کے قریب حکومت مخالفین کے مضبوط گڑھوں کے خلاف اپنی کارروائیاں بڑھا دی ہیں، اور وہ حمص میں بھی مخالفین کو کچل رہی ہیں۔
ترک سرحد کے قریب شام فورسز کی کارروائی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پرپناہ گزینوں کی آمد سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی امور کے ایک ماہر اوزل کا کہناہے کہ انقرہ اس صورت حال کو روکنے کے لیے مداخلت بھی کرسکتا ہے۔
فی الحال ترکی میں پناہ حاصل کرنے والے شامی باشندوں کی دیکھ بھال انقرہ کے لیے ممکن ہے، لیکن ماہرین کا کہناہے کہ ترکی کو یہ علم ہے کہ شام کے بحران کے شدت اختیار کرنے کی صورت میں اس کی سرحدوں پر انسانی بھلائی کےمعاملات ایک بڑا مسئلہ بن سکتے ہیں۔