ترکی نے کہا ہے کہ وہ شام کے رہنماؤں کے اثاثے منجمد کررہا ہے اور گزشتہ آٹھ ماہ سے جمہوریت پسندوں کے خلاف جاری پر تشدد کریک ڈاؤن ختم کرانے کے لیے دباؤ کے طورپر مزید اقدامات کررہا ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ احمد داود اغلو نے ان پابندیوں کا اعلان بدھ کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔
ان اقدامات میں شام کے مرکزی بینک سے قطع تعلق، ملک کو اسلحے کی ترسیل اور دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین اسٹریٹیجک تعاون کے معاہدے کی معطلی بھی شامل ہیں۔
مارچ میں شروع ہونے والی تحریک سے قبل ترکی شام کے صدر بشار الاسد کا بہت قریبی دوست رہا ہے۔ داود اوغلو کا کہنا تھا کہ اس اقتدار کا سفر اب خاتمے کے قریب ہے۔
ترکی کی طرف سے شام پر عائد کی جانے والی پابندیوں سے قبل اتوار کو عرب لیگ نے بھی دمشق پر اقتصادی اور سیاسی تعزیرات کی منظوری دی تھی۔ صرف عراق اور لیبیا نے ان اقدامات کی حمایت سے انکار کیا تھا۔
شام کے وزیر اطلاعات نے منگل کے روز کہا تھا کہ ان کا ملک خود کفیل ہے اور پابندیوں سے نمٹنے کے لیے اس کے پاس خوراک اور بنیادی ضروریات کا ذخیرہ موجود ہے۔