اسلام آباد —
پاکستان، افغانستان اور ترکی کے صدور منگل کو ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں مل رہے ہیں جہاں وہ تینوں ملکوں کے مابین ترقی اور قیام امن کی کوششوں میں مزید تعاون کو بڑھانے کے لیے ممکنہ اقدامات پر بات چیت کریں گے۔
سہ فریقی مذاکرات کے اس ساتویں دور میں پاکستانی حکام کے مطابق وزرائے خارجہ، داخلہ اور مواصلات کے علاوہ اعلیٰ فوجی اور سرکاری حکام شرکت کریں گے۔
حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سلامتی اور امن کے امور بات چیت کا محور ہوں گے۔
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب حال ہی میں افغان صدر حامد کرزئی نے یہ الزام لگایا کہ ان کے ملک کے خفیہ ادارے کے سربراہ پر گزشتہ ہونے والے خود کش حملے کی منصوبہ بندی پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ وہ یہ معاملہ پاکستانی حکام کے ساتھ انقرہ میں بھی اٹھائیں گے۔
پاکستان نے اپنے رد عمل میں کہا تھا کہ بہتر ہوتا اگر الزامات لگانے سے پہلے کابل اس حملے سے متعلق معلومات یا شواہد اسلام آباد کو فراہم کرتا اور خفیہ ادارے کے سربراہ کی سکیورٹی کی کمزوری کی تحقیقات کا حکم دیتا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ انقرہ میں مذاکرات جہاں پاکستان اور افغانستان کے رہنماؤں اور حکام کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خطے میں قیام امن کی کوششوں سے متعلق اپنے نقطہ نظر مزید واضح طور پر پیش کرنے کا موقع فراہم کریں گے وہیں دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان موجود عدم اعتماد کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ امریکہ نے طالبان کو افغانستان کے مسئلے کا ایک فریق تسلیم کر لیا ہے اس لیے ان مذاکرات میں طالبان کو مذاکراتی عمل میں شامل کرنے کے طریقے کار پر بات چیت ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے 2014ء میں انخلاء کے بعد وہاں امن و سلامتی کے خدشات موجود رہیں گے اگر اس مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ نے ایک موثر ثالث کا کردار ادا نہ کیا۔
’’افغانوں کو آپس میں بیٹھ کر اپنے مسئلے سلجھانے ہوں گے۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس طرح امریکہ نے بات کرنی ہے تو امریکہ خود ایک فریق ہے تو وہ امن نہیں لاسکتا اس لیے اقوام متحدہ کو غیر جانبدار کردار ادا کرنا ہوگا۔‘‘
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے وہاں کے مفاہتی عمل کی بھر پور حمایت کرتا ہے اور اسی بناء پر اس نے حال ہی میں 13 طالبان شدت پسندوں کو رہا کیا ہے۔
افغان رکن پارلیمنٹ شیر علی وردک ایک پارلیمانی وفد کے ہمراہ اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے افغان مفاہتی عمل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ابھی تک طالبان کی اعلیٰ قیادت کی نشاندہی نہیں کر سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کی قیادت اس عمل میں شامل نہیں ہے اور اگر ہیں تو افغانستان میں جنگ کیوں بند نہیں ہو رہی۔ اگر وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں تو پھر جنگ کا خاتمہ اس کی پہلی شرط ہونا چاہیئے۔‘‘
افغان رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ انقرہ میں ہونے والے مذاکرات میں دونوں ممالک کے صدور اور
حکام اپنے مشترکہ دشمن کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیئے۔
سہ فریقی مذاکرات کے اس ساتویں دور میں پاکستانی حکام کے مطابق وزرائے خارجہ، داخلہ اور مواصلات کے علاوہ اعلیٰ فوجی اور سرکاری حکام شرکت کریں گے۔
حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سلامتی اور امن کے امور بات چیت کا محور ہوں گے۔
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب حال ہی میں افغان صدر حامد کرزئی نے یہ الزام لگایا کہ ان کے ملک کے خفیہ ادارے کے سربراہ پر گزشتہ ہونے والے خود کش حملے کی منصوبہ بندی پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ وہ یہ معاملہ پاکستانی حکام کے ساتھ انقرہ میں بھی اٹھائیں گے۔
پاکستان نے اپنے رد عمل میں کہا تھا کہ بہتر ہوتا اگر الزامات لگانے سے پہلے کابل اس حملے سے متعلق معلومات یا شواہد اسلام آباد کو فراہم کرتا اور خفیہ ادارے کے سربراہ کی سکیورٹی کی کمزوری کی تحقیقات کا حکم دیتا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ انقرہ میں مذاکرات جہاں پاکستان اور افغانستان کے رہنماؤں اور حکام کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خطے میں قیام امن کی کوششوں سے متعلق اپنے نقطہ نظر مزید واضح طور پر پیش کرنے کا موقع فراہم کریں گے وہیں دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان موجود عدم اعتماد کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ امریکہ نے طالبان کو افغانستان کے مسئلے کا ایک فریق تسلیم کر لیا ہے اس لیے ان مذاکرات میں طالبان کو مذاکراتی عمل میں شامل کرنے کے طریقے کار پر بات چیت ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے 2014ء میں انخلاء کے بعد وہاں امن و سلامتی کے خدشات موجود رہیں گے اگر اس مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ نے ایک موثر ثالث کا کردار ادا نہ کیا۔
’’افغانوں کو آپس میں بیٹھ کر اپنے مسئلے سلجھانے ہوں گے۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس طرح امریکہ نے بات کرنی ہے تو امریکہ خود ایک فریق ہے تو وہ امن نہیں لاسکتا اس لیے اقوام متحدہ کو غیر جانبدار کردار ادا کرنا ہوگا۔‘‘
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے وہاں کے مفاہتی عمل کی بھر پور حمایت کرتا ہے اور اسی بناء پر اس نے حال ہی میں 13 طالبان شدت پسندوں کو رہا کیا ہے۔
افغان رکن پارلیمنٹ شیر علی وردک ایک پارلیمانی وفد کے ہمراہ اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے افغان مفاہتی عمل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ابھی تک طالبان کی اعلیٰ قیادت کی نشاندہی نہیں کر سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کی قیادت اس عمل میں شامل نہیں ہے اور اگر ہیں تو افغانستان میں جنگ کیوں بند نہیں ہو رہی۔ اگر وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں تو پھر جنگ کا خاتمہ اس کی پہلی شرط ہونا چاہیئے۔‘‘
افغان رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ انقرہ میں ہونے والے مذاکرات میں دونوں ممالک کے صدور اور
حکام اپنے مشترکہ دشمن کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیئے۔