ترک پارلیمان نے جمعرات کو ایک قرارداد منظور کی جس سے حکومت کو لیبیا میں فوج تعینات کرنے کی اجازت مل گئی ہے، تاکہ اقوام متحدہ کی حمایت سے طرابلس میں قائم حکومت کی مدد کی جا سکے۔
طرابلس کی حکومت حریف حکومت کی وفادار فوج کے ساتھ لڑ رہی ہے، جو دارالحکومت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔
پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس کے دوران ترک قانون سازوں نے قرارداد کے حق میں 325 جب کہ مخالفت میں 184 ووٹ دیے۔ پارلیمان نے ایک سال کے لیے ترک فوجی تعینات کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔
حکومت کو ایک ایسے وقت میں اس اقدام کی اجازت مل گئی ہے، جب یہ تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ ترک فوجوں کی تعیناتی کے نتیجے میں لیبیا کا تنازع سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے، جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو گا۔
طرابلس میں قائم حکومت لیبیا کے وزیر اعظم فیض سراج چلا رہے ہیں، جسے مشرقی علاقے کے کمانڈر جنرل خلیفہ ہفتار کی حریف حکومت کے حملوں کا سامنا ہے۔
جاری لڑائی کے باعث یہ خدشہ لاحق ہے کہ لیبیا پھر سے 2011ء کے تنازع کی سنگین صورت حال نہ اختیار کر لے۔ اس وقت طویل مدت سے مطلق العنان، محمد قذافی اقتدار پر قابض تھے اور خانہ جنگی سے ملکی حالات ابتر شکل اختیار کر گئے تھے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ سراج نے ترک فوج کی تعیناتی کی درخواست کی ہے۔ اردوان نے سراج کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت فوجی ماہرین اور اہل کار لیبیا روانہ کیے جا سکتے ہیں۔
اس معاہدے کے علاوہ ترکی اور لیبیا کے مابین جہاز رانی کی سرحدوں پر طے ہونے والے ایک علیحدہ سمجھوتے پر خطے اور دور دراز علاقے میں برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ترکی کا کہنا ہے کہ فوج کی تعیناتی اہمیت کی حامل ہے، جس سے ترکی، لیبیا اور بحیرہ روم میں اپنے مفادات کو تحفظ ہو سکے گا، جہاں یونان، قبرص، مصر اور اسرائیل نے اپنے مخصوص اقتصادی زون بنا رکھے ہیں، تاکہ پیٹرول اور گیس کی تلاش کے کام میں حصہ لیا جا سکے۔
قرارداد کے حق میں بولتے ہوئے، حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے قانون ساز، عصمت یلماز نے کہا ہے کہ ''لیبیا کی قانونی حکومت کو خطرہ لاحق ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں کہیں ترکی میں عدم استحکام نہ پیدا ہو جائے۔ وہ افراد جو زمینی حقائق کا سامنا کرنے سے قاصر ہیں، انھیں سمجھنا ہو گا کہ اس سے ہمارے بچوں کے لیے خطرات بڑھ سکتے ہیں''۔
حکومت نے ترک فوج کی تعیناتی سے متعلق تفصیل فراہم نہیں کیں۔