افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک سرکاری عمارت کے داخلی دروازے پر خود کش حملے میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
حکام کے مطابق دھماکہ پیر کی دوپہر شہر کے مغربی علاقے میں واقع دیہی ترقیات اور بحالی کی وزارت کے دفتر کے باہر ہوا۔
افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں وزارت کے ملازمین کے علاوہ خواتین اوربچے بھی شامل ہیں۔
تاحال کسی تنظیم نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ البتہ یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب افغان طالبان نے ایک روز قبل ہی عید کے تین روز کے دوران افغانستان بھر میں جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
طالبان کی جانب سے اتوار کو جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے اہم ترین تیوہار عید الفطر کے احترام میں عید کے تینوں دن پورے ملک میں اپنی کارروائیاں معطل کر رہے ہیں۔
دریں اثنا افغانستان کےمشرقی صوبے غزنی میں سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے ایک بس میں سوار چھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
صوبہ غزنی کے گورنر کے ترجمان عارف نوری نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ پیر کو ہونے والے دھماکے میں تین افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔
ترجمان نے الزام لگایا کہ بم طالبان جنگجووں نے نصب کیا تھا۔
پیر کو ہی صوبہ ننگر ہار کے شہر جلال آباد میں محکمۂ تعلیم کے ایک دفتر کے باہر ہونے والے خود کش حملے میں کم از کم 10 افراد زخمی ہوگئے۔
ننگر ہار کی صوبائی حکومت کے ترجمان عطااللہ خوگیانی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ خود کش حملہ آور کے تین دیگر ساتھی عمارت میں گھسنے کی کوشش کے دوران سکیورٹی فورسز کی جوابی فائرنگ میں مارے گئے۔
ترجمان کے مطابق حملےکے مقام کے نزدیک سے بارود سے بھری ایک گاڑی بھی برآمد ہوئی ہے۔
غزنی اور ننگرہار میں کیے جانے والے ان دونوں حملوں کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔
گزشتہ ہفتے افغان صدر اشرف غنی نے رمضان کے آخری عشرے اور عید کی وجہ سے ملک بھر میں 20 جون تک طالبان کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا تھا۔
افغانستان میں تعینات امریکی فوج نے بھی صدر غنی کی جانب سے اعلان کردہ جنگ بندی کی پاسداری کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
تاہم افغان صدر نے واضح کیا تھا کہ جنگ بندی کا اطلاق داعش، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں پر نہیں ہوگا اور ان کے خلاف افغان فورسز کی کارروائیاں بدستور جاری رہیں گی۔