افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ملک میں سرگرم طالبان کے ساتھ یک طرفہ طور پر غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کیا ہے جو ان کے بقول 20 جون تک موثر رہے گی۔
تاہم افغان حکومت کے مطابق اس جنگ بندی کا اطلاق افغانستان میں سرگرم دیگر شدت پسند گروہوں بشمول داعش اور القاعدہ پر نہیں ہوگا اور ان کے خلاف افغان فورسز کی کارروائیاں بدستور جاری رہیں گی۔
افغان صدر نے جنگ بندی کا یہ اعلان رواں ہفتے کابل میں ہونے والے افغان علما کے ایک اجلاس کے بعد کیا ہے جس میں علما نے ملک میں خود کش حملوں کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔
دو روزہ اجلاس میں دو ہزار سے زائد علمائے دین اور مذہبی رہنما شریک تھے جنہوں نے حکومت اور طالبان دونوں پر جنگ بند کرنے اور مذاکرات کرنے پر زور دیا تھا۔
گو کہ صدر اشرف غنی اس سے قبل بھی طالبان پر جنگ بند کرنے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر زور دیتے رہے ہیں لیکن 2014ء میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات کو ٹی وی پر قوم سے خطاب میں افغان صدر نے کہا کہ افغان فورسز طالبان کے خلاف اپنی تمام کارروائیاں اور حملے یک طرفہ طور پر روک رہی ہیں اور یہ تمام کارروائیاں 20 جون تک معطل رہیں گی۔
خطاب کے بعد ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں صدر غنی نے جنگ بندی کو طالبان کے لیے ایک موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس مہلت کا فائدہ اٹھا کر اس دوران اپنی پرتشدد مہم پر ازسرِ نو غور کریں جس کے نتیجے میں،بقول افغان صدر، وہ لوگوں کے دل تسخیر کرنے کے بجائے بلکہ الٹا افغان معاشرے سے کٹ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا اعلان افغانستان میں جاری تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے کے افغان حکومت اور عوام کے عزم اور خلوص کا مظہر ہے۔
تاحال طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اس اعلان پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
صدر غنی نے جنگ بندی کا اعلان ایسے وقت کیا ہے جب مسلمانوں کے اہم ترین مذہبی تیوہار عیدالفطر میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا ہے اور دنیا کے دیگر مسلم اکثریتی علاقوں کی طرح افغانستان میں بھی عید کی تیاریاں جاری ہیں۔
دریں اثنا افغانستان میں تعینات امریکی فوج نے کہا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ جنگ بندی پر عمل کرے گی۔
افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو افواج کے سربراہ جنرل جان نکلسن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ غیر ملکی افواج مقدس مہینے رمضان کے پرامن اختتام اور ملک میں جاری محاذ آرائی کے حل کی کوششوں سے متعلق افغانستان کی خواہش کی مکمل پاسداری کریں گی۔