اسلام آباد کے علاقہ بھارہ کہو سے دو بلوچ طالب علموں کے مبینہ طور پر نامعلوم افراد کے ہاتھوں غائب ہونے کی اطلاع ہے۔ اسلام آباد پولیس نے بلوچ نوجوانوں کے دوست کی اطلاع پر درخواست وصول کرکے اسے ای ٹیگ جاری کر دیا ہے لیکن تاحال مقدمہ درج نہیں ہوا۔
غائب ہونے والے دونوں طالب علموں کی شناخت جواد اقبال اور زید عبدالرسول کے نام سے ہوئی جن میں سے جواد قائداعظم یونیورسٹی میں الیکٹرانکس ڈیپارٹمنٹ کے پانچویں سمسٹر میں تعلیم حاصل کر رہا تھا جبکہ زید نے بھارہ کہو کے ایک کالج سے حالیہ دنوں میں ایف ایس سی کیا تھا اور ابھی قائداعظم یونیورسٹی میں داخلے کے مرحلے میں تھا۔
ان دونوں طالب علموں کے ایک مشترکہ دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جواد بھارہ کہو میں ایک کمرے میں رہائش پذیر تھا اور منگل کی صبح چھ بجے چھ سات اہل کار اس کے کمرے میں داخل ہوئے ۔ ان میں سے چار وردی میں اور باقی سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے۔
ان افراد نے شناخت کے بعد جواد کو حراست میں لیا اور اس کے ساتھ اس کا موبائل لیپ ٹاپ اور دیگر سامان بھی لیکر چلے گئے۔ اس کے بعد کمر ے میں موجود جواد کے ایک دوست نے باقی بلوچ طالب علموں کو واقعہ کے بارے میں آگاہ کیا اور جب تمام دوستوں کو چیک کیا تو زید عبدالرسول کے کمرے پر بھی تالا لگا ہوا تھا جس کے بعد قریبی دکان پر چیک کیا گیا تو اس میں زید کو مسلح اہل کاروں کے ساتھ لے جانے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود تھی۔
جواد کے دوست کے مطابق ہم نے اس بارے میں پولیس سے رابطہ کیا جس پر انہوں نے ہماری درخواست پر ای ٹیگ جاری کر دیا لیکن کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی پولیس کی طرف سے ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔
جواد کے دوست کا کہنا تھا کہ جواد کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ اور زید کا تعلق پسنی گوادر سے تھا۔
اس حوالے سے بلوچ طالب علموں کے کیسز لڑنے والی ایمان مزاری ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں بلوچ طالب علموں کی گمشدگی کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اسلام آباد میں ایسے کیسز سامنے آتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس میں بھی زید عبدالرسول کو اغوا کیے جانے کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے جس میں نامعلوم مسلح افراد اسے زبردستی لے جاتے ہوئے دکھائی رے رہے ہیں۔اسی طرح جواد کو اس کے روم میٹ کے سامنے اغوا کیا گیا۔
ایمان مزاری نے کہا کہ پولیس کو اس بارے میں ایف آئی آر درج کرنے کے لیے درخواست دی گئی ہے لیکن مبینہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ اس علاقہ کے ایس پی کی طرف سے مقدمہ درج نہ کرنے کا حکم مقامی پولیس سٹیشن کو دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جبری گمشدگیوں کے کمیشن میں بھی درخواست دی ہے اور ایس ایس پی آپریشن کو بھی مقدمہ کے اندراج کے لیے درخواست دیدی گئی ہے۔ مگر ایک معمول کا طریقہ کار بھی نہیں اپنایا جا رہا اور ان بلوچ طالب علموں کے غائب ہونے پر مقدمہ تک درج نہیں کیا جا رہا۔
اس بارے میں اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بارے میں تفصیل دینے کا کہا لیکن اس خبر کی اشاعت تک انہوں نے کوئی موقف نہیں دیا۔ اسلام آباد پولیس رورل ایریا کے ایس پی امجد فاروق بٹر سے بھی رابطہ کیا گیا لیکن ان کی طرف سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان طالب علموں کو منگل کے روز صبح چھ بجے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا اور ای ٹیگ کے مطابق اسی دن دوپہرایک بجکر 5 منٹ پر درخواست موصول ہوگئی لیکن بدھ کی شام تک اس سلسلہ میں کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی پولیس کی طرف سے کسی قانونی کارروائی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
گزشتہ سال اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک طلب علم حفیظ بلوچ کو بلوچستان میں غائب کر دیا گیا تھا جس پر یونیورسٹی سٹوڈنٹس نے بھرپور اجتجاج کیا تھا۔ بعد میں حفیظ بلوچ کو ایک عدالت میں پیش کیا گیا اور گولہ بارود برآمد ہونے کا الزام عائد کیا گیا لیکن انہیں بعد میں عدالت نے تمام الزامات سے بری کر دیا تھا۔
سال 2022 میں راول پنڈی میں بھی بارانی یونیورسٹی کے ایک طالب علم فیروز بلوچ مبینہ طور پر غائب ہوئے اور ان کے بارے میں ایف آئی آر کے اندراج کے باوجود انہیں اب تک بازیاب نہیں کروایا جاسکا۔
ماضی میں قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علموں نے حساس اداروں کی طرف سے پروفائلنگ اور انٹرویوز کرنے کا بتایا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے، تاہم پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے عمل کی تردید کی تھی۔