بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا کے ایک ریستوران میں مسلح افراد کے حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ملک گیر سطح پر سوگ منایا جارہا ہے۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق اتوار اور پیر کو قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔
ڈھاکا کے ایک معروف علاقے میں واقع ریستوران ’ہولی آرٹیزن بیکری‘حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے افراد میں سے 20 مارے گئے۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے ہفتہ کو ٹی وی پر قوم سے خطاب میں کہا کہ " اسلام امن کا مذہب ہے۔ آپ اسلام کے نام پر لوگوں کو ہلاک کرنا بند کر دیں"۔
انہوں نے اس بارے میں بھی شبے کا اظہار کیا ہے کہ حملہ آور مسلمان تھے۔
سات مسلح عسکریت پسندوں نےجمعہ کی رات کو ریستوران کے اندار داخل ہو کر فائرنگ شروع کر دی اور وہاں موجود افراد کر یر غمال بنا لیا۔ اس حملے کے بارہ گھنٹوں کے بعد بنگلہ دیش کی سیکورٹی فورسز اور پولیس نے مغویوں کو رہا کروا نے کی کارروائی کا آغاز کیا۔
اس کارروائی میں چھ حملہ آور مارے گئے جبکہ 13 مغویوں کو بازیاب کروا لیا گیا۔ لیکن یہاں سے حکام کو 20 افراد کی لاشیں بھی ملیں جنہیں حملہ آوروں نے تیز دھار آلے کے وار سے ہلاک کر دیا تھا۔ ہلاک ہونے والے میں دو پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں 9 اطالوی، سات جاپانی اور ایک امریکی شہری بھی شامل تھا۔
سکیورٹی فورسز نے ایک مشتبہ حملہ آور کو زندہ گرفتار کر لیا۔
ایک معروف مذہبی عالم اور بنگلہ دیش جمعیت العلماء کے چیئرمین مولانا فرید الدین مسعود نے کہا کہ مشتبہ مذہبی انتہاپسندوں کی طرف سے معصوم افراد کا قتل ایک بہیمانہ اقدام ہے اور غیر مسلموں کو قتل کرنا ایک غیر اخلاقی فعل ہے جو اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
شدت پسند گروپ ’داعش‘ سے وابستہ عماق نیوز ایجنسی کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ حملہ اُس کے جنگجوؤں کی کارروائی ہے۔
بنگلہ دیش کی حکومت کی طرف سے داعش کے بیان پر کوئی ردعمل سامنا نہیں آیا ہے۔ حکومت پہلے کہتی رہی ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی دہشت گرد گروپ بنگلہ دیش میں سرگرم نہیں ہے۔