قبائلی علاقے کے خیبر پختونخواہ صوبے میں انضمام اور اسے الگ صوبائی حیثیت دینے کے مطالبات کو لے کر ہفتہ کو دو مختلف اجتماعات ہوئے جن میں شرکا نے اپنے اپنے موقف کو دہراتے ہوئے اپنے مطالبات کو منظور کیے جانے پر زور دیا۔
وفاقی حکومت قبائلی علاقوں میں اصلاحات سے متعلق قائم کمیٹی کی سفارشات کے تحت آئندہ پانچ سالوں میں فاٹا کو شمال مغربی صوبے میں ضم کرنے کا کہہ چکی ہے لیکن اب بھی قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بعض حلقے ان علاقوں پر مشتمل ایک الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ہفتہ کو پشاور میں گرینڈ قبائلی جرگہ منعقد ہوا جس میں خیبر پختونخواہ میں انضام کی مخالف کرنے والے کئی سرکردہ قبائلی راہنماؤں اور سابق اعلی سرکاری عہدیداروں نے شرکت کی۔
شرکا نے سات قبائلی ایجنسیوں پر مشتمل الگ صوبہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں اعلیٰ تعلیمی ادارے بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔
جرگے میں شریک سابق پاکستانی سفارتکار ایاز وزیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اب جب کہ قبائلی علاقوں کو پہلی مرتبہ باقاعدہ شناخت دینے کی بات ہو رہی ہے تو اس میں یہ ضروری ہے کہ مکمل طور پر اختیارات بھی اس علاقے کے عوام کو حاصل ہوں نہ کہ یہ وفاقی سے ہٹ کر صوبے کی سرپرستی میں چلا جائے۔
ان کا استدلال تھا کہ آج تک صوبہ خیبر پختونخواہ میں کسی بھی بڑے انتظامی عہدے پر قبائلی علاقوں کے لوگوں کو فائز نہیں کیا گیا اور اگر فاٹا کو صوبے میں ضم کر دیا جاتا ہے تو اس سے ان علاقوں سے سینیٹ کے لیے آٹھ نشستیں بھی ختم ہو جائیں گی۔
"اب اگر ہم ضم ہو جاتے ہیں خیبر پختونخواہ میں تو ہماری آٹھ سیٹیں سینیٹ کی ختم ہو جائیں گی۔ جو حکومت یہاں (خیبر پختونخواہ) کی ہے اس کا ہم حصہ بن جائیں گے اب پتا نہیں آئندہ دس بیس سالوں میں کوئی وزیراعلیٰ بھی ہم میں سے بن سکے گا یا نہیں۔ لیکن اگر ہمیں اپنا صوبہ مل جائے تو پھر وزیراعلیٰ بھی اپنا ہوگا ساری انتظامی مشینری ہماری اپنی ہوگی بجائے اس کے کہ میں آپ کے زیر سایہ ہی بیٹھا رہوں۔"
ادھر قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں جمرود کے مقام پر بھی قبائلی علاقوں کے نوجوانوں پر مشتمل ایک اتحاد کا اجتماع ہوا جس میں طلبا کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔
ان لوگوں نے فاٹا کو جلد خیبر پختونخواہ صوبے میں ضم کرنے کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ اس میں تاخیر کسی طور قبول نہیں کی جائے گی۔
جرگے سے خطاب کرتے ہوئے خیبر ایجنسی سے رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت فوری طور پر اصلاحاتی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کرے تاکہ قبائلی عوام کو ملک کے دیگر حصوں کے شہریوں کے برابر لانے کی راہ ہموار ہو سکے۔