رسائی کے لنکس

بھارت: سات کلو یورینیم غیر متعلقہ افراد کے پاس کیسے پہنچی، تحقیقات 'این آئی اے' کے سپرد


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی ریاست مہاراشٹرا سے گزشتہ ہفتے سات کلو گرام یورینیم کے ساتھ گرفتار ہونے والے دو افراد کے معاملے کی تفتیش نیشنل انوسٹی گیٹیو ایجنسی (این آئی اے) کے سپرد کر دی گئی ہے۔

مہاراشٹرا کے ​انسداد دہشت گردی دستے (اے ٹی ایس) نے گزشتہ ہفتے سات کلو گرام یورینیم کے ساتھ دو افراد کو گرفتار کیا تھا۔

پاکستان نے بھی غیر متعلقہ افراد کی تحویل سے یورینیم کی برآمدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات پر زور دیا تھا۔ خیال رہے کہ یورینیم جوہری ایندھن کی تیاری میں بھی استعمال ہو سکتی ہے۔

گرفتار ہونے والے دو افراد سات کلو گرام یورینیم بازار میں فروخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ایک اندازے کے مطابق سات کلو گرام یورینیم کی قیمت 21 کروڑ روپے ہے۔

پہلے اس معاملے کی تحقیقات ممبئی 'اے ٹی ایس' کے پاس تھی لیکن حساسیت کے پیشِ نظر اب اس کی تحقیقات دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات کرنے والے ادارے نیشنل انوسٹی گیٹیو ایجنسی (این آئی اے) کے سپرد کر دی گئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق ممبئی اے ٹی ایس کو اطلاع ملی تھی کہ 27 سالہ شخص جگر جیئش پانڈے یورینیم کی کچھ مقدار لے کر اسے فروخت کرنے کے لیے گاہک کی تلاش کر رہا ہے جس کے بعد کارروائی کرتے ہوئے اسے گرفتار کر لیا گیا۔

پولیس کے مطابق جب گرفتار شخص سے پوچھ گچھ کی گئی تو انہیں معلوم ہوا کہ اسے یہ یورینیم کباڑی کا کام کرنے والے ایک شخص ابو طاہر افضل حسین چوہدری نے دی تھی۔

پولیس نے بدھ کو کرلا اسکریپ ایسوسی ایشن کے احاطے سے ابو طاہر افضل حسین چوہدری کو گرفتار کیا اور اس کے قبضے سے سات کلو 100 گرام قدرتی یورینیم برآمد کیا۔

پولیس کے مطابق برآمد شدہ یورینیم بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر (بی اے آر سی) بھجوا گیا۔

ریسرچ سینٹر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ یہ قدرتی یورینیم ہے جو کہ انتہائی تاب کار مادہ ہے اور انسانی زندگی کے لیے بہت خطرناک ہے۔

خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) نے بتایا کہ تفتیشی ایجنسی نے وزارت داخلہ کے حکم پر اتوار کو دوبارہ مقدمہ درج کر کے اس کی تفتیش شروع کر دی ہے۔

ملزموں کے خلاف اٹامک انرجی ایکٹ 1962 کے تحت رپورٹ درج کی گئی ہے۔

اس سے قبل ممبئی پولیس نے کالا چوکی پولیس اسٹیشن میں اس معاملے کی ایف آئی آر درج کی تھی۔

'پی ٹی آئی' کے مطابق دونوں ملزمان کو بدھ کو ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سے انہیں 12 مئی تک 'اے ٹی ایس' کی تحویل میں دے دیا گیا۔

یاد رہے کہ حالیہ برسوں میں یہ دوسرا موقع ہے جب پولیس نے انتہائی تاب کاری والے مادے کے ساتھ دو افراد کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس نے 2016 میں مہاراشٹرا سے نو کلوگرام یورینیم ضبط کی تھی۔

'این آئی اے' کے ایک بیان کے مطابق کیس درج کیے جانے کے بعد معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔

میڈیا نے ممبئی 'اے ٹی ایس' کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل شیو دیپ لانڈے کے حوالے سے خبر دی ہے کہ برآمد کیا جانے والا قدرتی یورینیم 90 فی صد سے زیادہ خالص ہے اور پولیس یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ملزمان کو یہ کیسے پتا تھا کہ یہ یورینیم ہے۔

'کباڑی مارکیٹ تک یورینیم کا پہنچنا بہت خطرناک معاملہ ہے'

ملک کے معروف سائنس دان ڈاکٹر گوہر رضا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ ایک بہت حساس اور خطرناک معاملہ ہے۔ اس سے قبل دہلی کی ایک کباڑی مارکیٹ سے بھی انتہائی تاب کار مادہ ضبط کیا گیا تھا جس پر کافی ہنگامہ بھی ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹس کے مطابق یہ لوگ اسے فروخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے یعنی ان کو معلوم تھا کہ یہ یورینیم ہے حالاں کہ کباڑ کے درمیان میں یورینیم کی شناخت بہت مشکل کام ہے۔

ان کے مطابق ان دونوں کباڑیوں کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ چیز یورینیم ہے اور اسے عالمی مارکیٹ میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اس سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ لہٰذا اس پورے معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے۔

ڈاکٹر گوہر رضا نے مزید کہا کہ بھابھا اٹامک سینٹر کے اندر یورینیم پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پروسیس بھی کیا جاتا ہے لیکن وہاں بہت سخت سیکیورٹی کا انتظام ہے لہٰذا اس کی تحقیقات ضروری ہے کہ یہ باہر کہاں سے آیا۔

انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ممکن ہے کہ اس معاملے میں کوئی ایسا شخص بھی ملوث ہو جو یورینیم کا ماہر ہو اور جسے یہ معلوم رہا ہو کہ یہ یورینیم ہے اور وہ ان کباڑیوں کے توسط سے اسے فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔

ان کے مطابق اگر یورینیم دہشت گردوں کے ہاتھوں میں یا غلط ہاتھوں میں چلی جائے تو ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے اور عام انسانی زندگی کے لیے بھی یہ بات کافی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یورینیم کا استعمال کئی قسم کے تجربات میں ہوتا ہے۔ اس کا استعمال توانائی پیدا کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے اور اس سے ایٹم بم بھی بنایا جاتا ہے اس لیے اس کا عام مارکیٹ میں پہنچنا بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان نے غیر قانونی یورنییم کی برآمدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس معاملے کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے ہفتے کو ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "جوہری مادوں کا تحفظ سبھی ملکوں کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ اس معاملے کی گہرائی سے تفتیش کی ضرورت ہے۔"

ڈاکٹر گوہر رضا کہتے ہیں کہ کوئی ملک اس کی تحقیقات کا مطالبہ کرے یا نہ کرے لیکن تفتیشی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس کی اعلیٰ سطحی جانچ کریں اور یہ پتا لگانے کی کوشش کریں کہ ملزموں کے پاس یہ مادہ کیسے پہنچا اور کیا کوئی اور اس میں ملوث ہے۔ یہ بہت ہی نازک، حساس اور خطرناک معاملہ ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG