نیپال میں اختتام ہفتہ آنے والےتباہ کُن زلزلے کےنتیجے میں زمین بوس ہونے والی عمارات کا ملبہ ہٹائے جانے کے دوران، بچاؤ اور امداد سے وابستہ کارکنوں نے جمعرات کے دِن بچ جانے والے دو افراد کو نکالا۔ اس نوع کے لمحات کم ہی سامنے آتے ہیں، جب افسردہ ماحول میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جائے۔ دوسری طرف، ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر تقریباً 6000 ہوچکی ہے۔
جب زمین بوس ہونے والے ایک گیسٹ ہاؤس کے ملبے سے ایک 15 برس کے لڑکے، پیمبا تمنگ کو زندہ نکال لیا گیا، تو نیپال کے دارلحکومت کھٹمنڈو میں خوشی کی ایک لہر اٹھی۔ پھر کچھ ہی گھنٹے بعد، ہوٹل کے باورچی خانے میں کام کرنے والی ایک خاتون کارکن، 30 سالہ کرشنا دیوی کو بھی زندہ نکال لیا گیا۔
نوجوان کے جسم پر دھول جمی ہوئی تھی۔ اُن کے کاندھے کو سہارا دے کر اسٹریچر پر لِٹایا گیا؛ اور اُنھیں ایک عارضی اسپتال پہنچایا گیا۔ تاہم، صحت سے متعلق کارکنان نے بتایا ہے کہ اُنھیں معمولی چوٹیں آئی تھیں۔
لڑکے نے بتایا کہ ملبے میں پھنسے رہنے کے دوران، ان ناقابل بیان لمحات میں، جہاں دھپ اندھیرا تھا، گھی کا ایک مرتبان اُن کے ہاتھ لگا، جسے وہ کھاتا رہا۔ دراصل یہ مکھن کا ڈبہ تھا۔
تمنگ نے گذشتہ ہفتے آنے والے اس زلزلے کے جھٹکوں سے متعلق اپنی درد بھری داستان سناتے ہوئے کہا کہ ’میں نے دوڑ لگائی۔ لیکن، کوئی چیز میرے سر سے ٹکرائی اور میں بیہوش ہوگیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کتنی دیر غشی کے عالم میں رہا۔۔۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں نے اپنے آپ کو ملبے تلے محسوس کیا۔ وہاں گُھپ اندھیرا تھا۔ میں نے اپنے قریب مدد کے لیے لوگوں کی چیخ و پکار سنی۔ لیکن، میں بے بس تھا۔‘
امدادی کام سے وابستہ کارکنوں نے بتایا ہے کہ زندہ نکالی گئی خاتون ہوش میں تھیں اور بات کرنے کے قابل تھیں۔ ایک نے یہ بھی بتایا کہ ایسا لگا کہ جیسے اُنھیں نئی زندگی ملی ہو۔