بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ملک دشمن سرگرمیوں کے الزام میں مزید دو سرکاری ملازمین کو برطرف کر دیا گیا ہے۔
کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے مبینہ طور پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں سرکاری اسکولوں کے دو اساتذہ بشیر احمد شیخ اور محمد یوسف گنائی کوملازمت سے برخواست کردیا ہے۔ برخواست کیے گئے دونوں سرکاری ملازمین کا تعلق سرحدی ضلعے کپواڑہ سے ہے۔
پولیس افسر دیویندر سنگھ بھی ملازمت سے برخاست
اس کے علاوہ ایک پولیس افسر دیویندر سنگھ کو بھی ملازمت سے نکال دیا گیا ہے۔
دیویندر سنگھ کو پولیس نے جنوری 2020ء میں ایک عسکری کمانڈر سید نوید مشتاق عرف نوید بابو اور ان کے ایک قریبی ساتھی آصف احمد راتھر کے ساتھ اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ مبینہ طور پر وادیِ کشمیر سے جموں کے راستے چندی گڑھ اور نئی دہلی کے لیے سفر کر رہے تھے۔
وہ جس کار میں سوار تھے اُسے، پولیس کے بیان کے مطابق، ایک کشمیری وکیل عرفان شفیع میر چلا رہے تھے۔
گرفتاری کے بعد دیویندر سنگھ کافی عرصے تک خبروں کی سرخیوں میں رہے اور اس وقت ان کے خلاف ایک خصوصی عدالت میں دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔
اس کیس میں بھارت کے تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے اب تک جن نصف درجن افراد کو گرفتار کیا ہے اُن میں کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن کے آر پار ہونے والی تجارت سے وابستہ ایک مقامی تاجر بھی شامل ہے۔
خیال رہے کہ بھارت کی حکومت نے ایل او سی پر ہونے والی تجارت کو کئی ماہ پہلے یک طرفہ فیصلے کے تحت معطل کر دیا تھا۔
بھارتی حکومت کا کہنا تھا کہ کراس ایل او سی تجارت دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منشیات کی تجارت کے لیے بھی استعمال کی جا رہی ہے۔
این آئی اے نے جموں و کشمیر کی ’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘ کے نوجوان لیڈر وحید الرحمٰن پرہ کو بھی بعد میں ملزمان کے ساتھ قریبی رابطہ رکھنے کے الزام میں حراست میں لے لیا تھا۔
’ریاستی سلامتی کو خطرہ‘
لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے رواں ماہ کے آغاز میں ایک کالج کے پروفیسر ڈاکٹر عبد الباری نائیک، ایک اسکول ٹیچر ادریس جان اور محکمۂ مال کے ایک اہل کار نائب تحصیل دار نذیر احمد وانی کو بھی مبینہ ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزام پر ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔
ملازمت سے برطرفی کے ان احکامات میں کہا گیا ہے کہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے بھارت کے آئین کے آرٹیکل 311 کی شق دو کی ضمنی شق سی کے تحت ریاست کی سلامتی کے ضمن میں یہ کارروائیاں کی ہیں اور وہ ان الزامات کی تحقیقات کرانا مناسب یا ضروری نہیں سمجھتے۔
محکمۂ داخلہ اور محکمۂ جنرل ایڈمنسٹریشن کے حکام نے ان کارروائیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ سروس رولز کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم کسی سیاسی تحریک میں شریک نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ملکی مفاد کے خلاف یا انتظامی امور میں رخنہ ڈالنے کا باعث بننے والی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے۔
سخت پالیسی
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نےکچھ عرصہ پہلے ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف سخت پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بھارت کی حکومت نے ان الزامات کے تحت اب تک ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو برطرف کیا ہے۔
کئی سرکاری ملازمین کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں نےملک یا سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر کے جیلوں میں بھی ڈالا ہے۔
حزبِ اختلاف اور سرکاری ملازمین کی تنظیمیں برہم
سرکاری ملازمین کی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے پولیس افسر کے سوا دیگر ملازمین کی برطرفی پر شدید نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت کی یہ کارروائیاں خلافِ قاعدہ اور من مانی ہیں۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور اپوزیشن جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے سرکاری ملازمین کی برطرفی کی ان کارروائیوں پر شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کے درمیان حکومت کو چاہیے کہ وہ کشمیر میں سرکاری ملازمین کو کمزور، بے اعتبار اور نا قابل یقین بنیادوں پر برطرف کرنے کے بجائے اپنی توجہ لوگوں کی جان بچانے پر مرکوز کرے۔
جموں و کشمیر امپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نائب صدر اطہر مظفر ریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک سرکاری ملازم کو ملازمت سے برطرف کرنے سے نہ صرف اُس پر، بلکہ اُس کے پورے خاندان پر اثر پڑتا ہے۔ وہ مالی اور نفسیاتی پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہ سراسر ناانصافی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے صوابدیدی بنیادوں پر برطرفیوں کو ناقابلِ فہم اور ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے ہر معاملے کی باقاعدہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ اگر تحقیقات کے دوران کوئی سرکاری ملازم واقعی قابلِ اعتراض یا سروس رولز کے منافی سرگرمیوں میں ملوث پایا جاتا ہے اور اگر یہ سنگین نوعیت کا معاملہ نہیں ہے تو حکومت کو درگزر سے کام لے کر اُسے سدھرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری صورت میں ایسے ملازم کے خلاف متعلقہ قانون کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ صوابدیدی، بے قاعدہ اور من مانی برطرفیاں انصاف کے بالکل منافی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ لیفٹننٹ گورنر سے اپیل ہے کہ کسی سرکاری ملازم کے پیٹ پر لات نہ ماری جائے۔ جن لوگوں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے اُن کے پورے کے پورے خاندان مضطرب اور پریشان ہیں۔
ملازمین کی جانچ پڑتال کے لیے ٹاسک فورس
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ نے اس سال اپریل میں ریاست کی سلامتی کے منافی اور ملک دشمن سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث سرکاری ملازمین کی نشاندہی اور جانچ پڑتال کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
محکمۂ پولیس کی سی آئی ڈی ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کو اس ٹاسک فورس کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے، جب کہ اس کے ارکان میں جموں اور کشمیر کے انسپکٹرز جنرل آف پولیس کے علاوہ داخلہ، قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کے محکموں کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔
جس سرکاری ملازم کے بارے میں جانچ پڑتال کی جارہی ہو گی اس کے محکمے کے نمائندے کو بھی اس عمل میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے گی۔
ناقدین نے ٹاسک فورس کے قیام کو من مانا فیصلہ قرار دیتے ہوئے لیفٹننٹ گورنر سے اسے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔