واشنگٹن —
یوکرائن کی پارلیمنٹ نے ملک کے صدر وکٹر یونو کووچ کو اقتدار سے بے دخل کرتے ہوئے ملک میں 25 مئی کو نئے انتخابات کرانے کی منظوری دیدی ہے۔
پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ صدر اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے درمیان جمعے کو ہونے والے سمجھوتے کے بعد سامنے آیا ہے جس کے تحت ملک میں 2004ء کا آئین بحال کرتے ہوئے پارلیمان کو زیادہ اختیارات سونپ دیے گئے تھے۔
یوکرائن کی پارلیمنٹ نے ملک کی سابق وزیرِاعظم اور حزبِ اختلاف کی رہنما یولیا ٹیمو شینکو کی رہائی کا حکم بھی جاری کیا ہے جنہیں صدر یونوکووچ کی بدترین مخالف سمجھا جاتا ہے۔
محترمہ ٹیمو شینکو کو 2011ء میں ایک عدالت نے وزارتِ عظمیٰ کے دوران اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے سمیت مختلف الزامات میں سات برس قید کی سزا سنائی تھی۔
صدر یونو کووچ نے اپنے خلاف پارلیمان کے فیصلے کو "غیر قانونی" اور "بغاوت" قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ صدر نے کہا ہے کہ وہ نہ تو اپنے عہدے سے مستعفی ہوں گے اور نہ ہی ملک چھوڑ کر جائیں گے۔
تاہم اطلاعات ہیں کہ صدر دارالحکومت سے چلے گئے ہیں جس کےبعد صدارتی دفتر اور رہائش گاہ پر حکومت مخالف مظاہرین نے قبضہ کرلیا ہے۔
صدر یونوکووچ کی معزولی پہ منتج ہونے والا یوکرائن کا حالیہ سیاسی بحران تین ماہ قبل روس نواز یونو کووچ کی جانب سے یورپ کے بجائے روس کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے کے اعلان کے بعد پیدا ہوا تھا۔
صدر کے اس اعلان کے خلاف ملک کی یورپ نواز حزبِ اختلاف نے پرتشدد احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع کردیے تھے جس کے باعث دارالحکومت میں معمولاتِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے تھے۔
دارالحکومت کے اہم مقامات پر قابض مظاہرین اور پولیس کے درمیان رواں ہفتے یوکرائن کی 22 سالہ سیاسی تاریخ کی بدترین جھڑپیں ہوئی تھیں جن میں اب تک لگ بھگ 80 افراد مارے جاچکے ہیں۔
اس خونی تصادم کے بعد جمعے کو صدر یونو کووچ اور حزبِ اختلاف کے مرکزی رہنماؤں نے یورپی ممالک کی کوششوں سے طے پانے والے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے تھے جس میں صدر یونو کووچ نے مظاہرین کے تمام مرکزی مطالبات تسلیم کرلیے تھے۔
سمجھوتے کے اعلان کے ایک گھنٹے بعد ہی یوکرائن کی پارلیمنٹ نے کثرتِ رائے سے 2004ء کا آئین بحال کرنے کی منظوری دیدی تھی جس کے بعدصدر بعض اختیارات سے محروم ہوگئے تھے اور حکومت سازی اور وزیرِاعظم کے چناؤ جیسے معاملات کا اختیار پارلیمنٹ کو مل گیا تھا۔
ہفتے کو نئے آئین کے تحت پارلیمنٹ نے صدر کو معزول کرنے کی قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا ہے کہ صدر یونوکووچ آئینی طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے اہل نہیں رہے۔
صدر کی معزولی کے لیے ہونے والے اجلاس سے قبل پارلیمان کے اسپیکر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے جنہیں صدر یونوکووچ کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ اسپیکر کے استعفیٰ کے بعد ایوان نے سابق وزیرِاعظم ٹیموشینکو کے قریبی ساتھی کو نیا اسپیکر منتخب کرلیا تھا۔
صدر یونو کووچ کی جانب سے پارلیمان کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کے باوجود ان کی حکومت کے تقریباً تمام اہم عناصر نے ان کا ساتھ چھوڑنے کا واضح عندیہ دے دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی حکومت عملاً اپنا اثر کھو بیٹھی ہے۔
وفاقی کابینہ کے ارکان نے نئی حکومت کے قیام تک اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کا اعلان کیا ہے جب کہ پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کی نگران وزارتِ داخلہ نے "عوامی رائے کے ساتھ کھڑے ہونے" کا بیان جاری کیا ہے۔
یوکرائن کی پارلیمان کے نئے اسپیکر نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر یونو کووچ نے روس فرار ہونے کی کوشش کی تھی جسے ناکام بنادیا گیا ہے۔ ایک روسی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر اس وقت ڈونیسک کے علاقے میں موجود ہیں جہاں ان کے حامیوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔
پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ صدر اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے درمیان جمعے کو ہونے والے سمجھوتے کے بعد سامنے آیا ہے جس کے تحت ملک میں 2004ء کا آئین بحال کرتے ہوئے پارلیمان کو زیادہ اختیارات سونپ دیے گئے تھے۔
یوکرائن کی پارلیمنٹ نے ملک کی سابق وزیرِاعظم اور حزبِ اختلاف کی رہنما یولیا ٹیمو شینکو کی رہائی کا حکم بھی جاری کیا ہے جنہیں صدر یونوکووچ کی بدترین مخالف سمجھا جاتا ہے۔
محترمہ ٹیمو شینکو کو 2011ء میں ایک عدالت نے وزارتِ عظمیٰ کے دوران اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے سمیت مختلف الزامات میں سات برس قید کی سزا سنائی تھی۔
صدر یونو کووچ نے اپنے خلاف پارلیمان کے فیصلے کو "غیر قانونی" اور "بغاوت" قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ صدر نے کہا ہے کہ وہ نہ تو اپنے عہدے سے مستعفی ہوں گے اور نہ ہی ملک چھوڑ کر جائیں گے۔
تاہم اطلاعات ہیں کہ صدر دارالحکومت سے چلے گئے ہیں جس کےبعد صدارتی دفتر اور رہائش گاہ پر حکومت مخالف مظاہرین نے قبضہ کرلیا ہے۔
صدر یونوکووچ کی معزولی پہ منتج ہونے والا یوکرائن کا حالیہ سیاسی بحران تین ماہ قبل روس نواز یونو کووچ کی جانب سے یورپ کے بجائے روس کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے کے اعلان کے بعد پیدا ہوا تھا۔
صدر کے اس اعلان کے خلاف ملک کی یورپ نواز حزبِ اختلاف نے پرتشدد احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع کردیے تھے جس کے باعث دارالحکومت میں معمولاتِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے تھے۔
دارالحکومت کے اہم مقامات پر قابض مظاہرین اور پولیس کے درمیان رواں ہفتے یوکرائن کی 22 سالہ سیاسی تاریخ کی بدترین جھڑپیں ہوئی تھیں جن میں اب تک لگ بھگ 80 افراد مارے جاچکے ہیں۔
اس خونی تصادم کے بعد جمعے کو صدر یونو کووچ اور حزبِ اختلاف کے مرکزی رہنماؤں نے یورپی ممالک کی کوششوں سے طے پانے والے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے تھے جس میں صدر یونو کووچ نے مظاہرین کے تمام مرکزی مطالبات تسلیم کرلیے تھے۔
سمجھوتے کے اعلان کے ایک گھنٹے بعد ہی یوکرائن کی پارلیمنٹ نے کثرتِ رائے سے 2004ء کا آئین بحال کرنے کی منظوری دیدی تھی جس کے بعدصدر بعض اختیارات سے محروم ہوگئے تھے اور حکومت سازی اور وزیرِاعظم کے چناؤ جیسے معاملات کا اختیار پارلیمنٹ کو مل گیا تھا۔
ہفتے کو نئے آئین کے تحت پارلیمنٹ نے صدر کو معزول کرنے کی قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا ہے کہ صدر یونوکووچ آئینی طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے اہل نہیں رہے۔
صدر کی معزولی کے لیے ہونے والے اجلاس سے قبل پارلیمان کے اسپیکر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے جنہیں صدر یونوکووچ کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ اسپیکر کے استعفیٰ کے بعد ایوان نے سابق وزیرِاعظم ٹیموشینکو کے قریبی ساتھی کو نیا اسپیکر منتخب کرلیا تھا۔
صدر یونو کووچ کی جانب سے پارلیمان کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کے باوجود ان کی حکومت کے تقریباً تمام اہم عناصر نے ان کا ساتھ چھوڑنے کا واضح عندیہ دے دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی حکومت عملاً اپنا اثر کھو بیٹھی ہے۔
وفاقی کابینہ کے ارکان نے نئی حکومت کے قیام تک اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کا اعلان کیا ہے جب کہ پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کی نگران وزارتِ داخلہ نے "عوامی رائے کے ساتھ کھڑے ہونے" کا بیان جاری کیا ہے۔
یوکرائن کی پارلیمان کے نئے اسپیکر نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر یونو کووچ نے روس فرار ہونے کی کوشش کی تھی جسے ناکام بنادیا گیا ہے۔ ایک روسی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر اس وقت ڈونیسک کے علاقے میں موجود ہیں جہاں ان کے حامیوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔