نیٹو کے سکریٹری جنرل جین اسٹونبرگ نے کہا ہے کہ روس نے یوکرین کے اندر اور اُس کی مشترکہ سرحد کے ساتھ ساتھ ’قابلِ تشویش حد تک‘ فوجوں کی تعداد میں اضافہ جاری رکھا ہوا ہے، جِس میں فوج کی تعیناتی اور جدید اسلحے کے انبار لگانا شامل ہے، جس میں فضائی دفاع کے نظام بھی شامل ہیں۔
منگل کے روز برسلز میں خطاب کرتے ہوئے، اسٹونبرگ نے روس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی فوجیں واپس بلائے اور یوکرین میں پُرامن تصفیے کے سلسلے میں پیش رفت دکھائے، جہاں ملک کے مشرقی حصے میں یوکرین کی افواج روس کے حامی علیحدگی پسندوں کے ساتھ نبردآزما ہیں۔
یوکرین کی فوج نے منگل کے روز بتایا کہ اتوار سے اب تک جاری لڑائی کے دوران کم از کم پانچ فوجی ہلاک جب کہ آٹھ زخمی ہوچکے ہیں۔
روس اس بات کی بارہا تردید کرتا رہا ہے کہ وہ مشرقی یوکرین کی بغاوت کی حمایت نہیں کرتا، اور وہ ملک کے مشرق میں روس کے حامی علیحدگی پسندوں کے ہمراہ لڑنے والی روسی فوج کو رضاکاروں کا نام دیتا ہے۔
جرمنی کے وزیر خارجہ، فرینک والٹر اسٹائن مائر نے اس تنازعے کے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ ستمبر میں یوکرین اور باغیوں کے مابین طے ہونے والی جنگ بندی کے سمجھوتے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
ماسکو کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل، وہ یوکرین کے دارالحکومت میں نامہ نگاروں سے بات چیت کر رہے تھے۔
لندن میں، برطانوی وزیر خارجہ، فلپ ریمنڈ نے کہا ہے کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ روس کو تواتر کے ساتھ یاد دہانی کرائی جاتی رہے کہ اِس معاہدے کے تحت تمام فریق کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔
منگل کے ہی روز، یوکرین کے وزیر خارجہ، آرسنی یاتسنیوک نے روس سے مطالبہ کیا کہ کسی غیر وابستہ مقام پر، سنجیدہ نوعیت کے مذاکرات کیے جائیں۔