برسبین میں معیشت پر منعقدہ جی 20 سربراہ اجلاس میں عالمی رہنماؤں نے یوکرین میں روسی مداخلت پر، صدر ولادیمیر پیوٹن کی مذمت کی ہے۔
اتوار کے روز امریکی صدر براک اوباما نے بتایا کہ اگر مسٹر پیوٹن یوکرین کے تنازع کے خاتمے کی راہ میں بین الاقوامی قانون اور معاہدوں کی خلاف ورزی جاری رکھتے ہیں، تو بین الاقوامی برادری اُنھیں تنہا کرکے رکھ دے گی۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ روس کے خلاف مغرب کی موجودہ معاشی تعزیرات مؤثر ثابت ہوئی ہیں، جب کہ یوکرین میں روسی مداخلت کے مخالفین اُس طریقہ کار پر غور کر رہے ہیں کہ اگر ضروری ہوا، تو مسٹر پیوٹن پر دباؤ بڑھایا جائے گا۔
مسٹر اوباما کے بقول، ’اِس مرحلے پر، لاگو ہونے والی تعزیرات اپنا اچھا اثر دکھا رہی ہیں۔ ہم اپنی صلاحیتوں کا مؤثر استعمال کر رہے ہیں، اور ہماری ٹیمیں مستقل طور پر اُس طریقہٴکار پر غور کر رہی ہیں، جس کے تحت ضروری خیال کیے جانے پر، انھیں اضافی طور پر کسا جائے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ کینیڈا کے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر نے مسٹر پیوٹن سے کہا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ آپ سے ہاتھ ملایا جاسکتا ہے، لیکن مجھے آپ سے صرف ایک ہی چیز کہنی ہے: وہ یہ کہ آپ کو یوکرین سے نکلنا ہوگا‘۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم، ٹونی ایبٹ نے مسٹر پیوٹن سے مطالبہ کیا کہ باغیوں کے زیر تسلط مشرقی یوکرین میں ملائیشیا کا مسافر طیارہ گرائے جانے پر ’تاوان ادا کیا جائے‘؛ جب کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے روسی رہنما کو ’جھگڑالو‘ قرار دیا۔
پورگرام کے برخلاف، مسٹر پیوٹن اتوار ہی کو علی الصبح آسٹریلیا سے واپس چلے گئے، یہ کہتے ہوئے کہ اُنھیں نیند کی ضرورت ہے۔ تاہم، عالمی رہنماؤں کے ساتھ اُن کی ملاقاتیں تشنگی کا شکار رہیں۔ مسٹر پیوٹن نے ’ریا نووستی نیوز ایجنسی‘ کو بتایا کہ اُن کی فوری واپسی کا یوکرین کے معاملے پر جاری تناؤ سے کوئی تعلق نہیں۔
لیکن، مسٹر پیوٹن نے دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ نااتفاقی کو تسلیم کیا۔
پیوٹن کے بقول، ’ہاں۔ کچھ نکتوں پر ہمارے خیالات میل نہیں کھاتے۔ لیکن، گفتگو سیر حاصل، برجستہ اور دوستانہ رہی‘۔
چار ماہ قبل مار گرائے جانے والے مسافر طیارے کا ملبہ ہٹانے کا کام اتوار کو شروع ہوا، جس میں تمام کے تمام 298 افراد ہلاک ہوئے۔ روس اس واقعے میں ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کرتا ہے۔