واشنگٹن —
عوامی سفارت کاری اور پبلک امور سے متعلق محکمہٴخارجہ کے اعلیٰ اہل کار، رچرڈ اسٹینگل کا کہنا ہے کہ 25 مئی کو یوکرین میں ہونے والے انتخابات ’خصوصی اہمیت‘ کے حامل ہیں۔
یوکرین کے دارالحکومت، کیئف میں منگل کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کی یوکرینی سروس سے ایک انٹرویو میں، اُنھوں نے کہا کہ 25 مئی کے انتخابات جمہوریت کو تقویت بخشنےاور تبدیلی کا باعث بننے کے سلسلے میں انتہائی اہم ہیں۔
بقول اُن کے، ’امریکہ اِن انتخابات کا پُر زور حامی ہے، اور یہ کہ، ہم منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کے لیے درکار ہر ممکن مدد فراہم کریں گے‘۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کو خدشات لاحق ہیں کہ انتخابات کے دوران روس مشرقی یوکرین میں مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔
اُنھوں نے یاد دلایا کہ صدر براک اوباما اور وزیر خارجہ جان کیری متعدد بار یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ روس 25 مئی کے انتخابات میں روڑے اٹکانے سے باز رہے، اور اُنھوں نے اِس امید کا اظہار کیا کہ روس رکاوٹ کھڑی کرنے کے کسی حربے سے احتراز کرے گا۔
امریکی صدر کی طرف سے روس پر نئی تعزیرات لاگو کرنے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر، رچرڈ اسٹینگل نے کہا کہ یہ فیصلہ کافی سوچ بچار کے بعد کیا گیا ہے۔ بقول اُن کے، تعزیرات ایک طریقہ کار ہے، جس ہتھیار کو کسنے سے ذمہ داری کا احساس دلایا جا سکتا ہے۔
اِس ضمن میں، اُن کا کہنا تھا کہ صدر نے فیصلہ کرتے وقت یہ بات دھیان میں رکھی ہے کہ تعزیرات متناسب اور متوازن ہوں۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر روس نے 25 مئی کے انتخابات میں مداخلت کی کوشش کی، ’تو اُسے نتائج بھگتنا پڑیں گے‘۔ بقول اُن کے، ایسے میں یہ پابندیاں مزید سخت کی جائیں گی، یا پھر اِن کو مزید شعبہ جات تک پھیلایا جائے گا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’ہم نظر رکھیں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ یہ انتخابات کس طرح ہوتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے آیا یہ آزادانہ اور منصفانہ انداز سے ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے آیا روس اِس میں کوئی مداخلت تو نہیں کرتا۔ اگر یہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوتے ہیں، تب ہی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ تعزیرات کا یہ تناسب مناسب تھا یا نہیں‘۔
روسی پروپیگنڈہ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ پروپیگنڈہ تب ہی کامیاب ہوسکتا ہے جب دوسرا نکتہ نظر موجود نہ ہو؛ اور جب جھوٹ اور ملمع سازی کو بارہا اور تواتر کے ساتھ بیان کیا جائے۔
بقول اُن کے، ’ہم آزاد میڈیا کے حامی ہیں۔ ہم اظہار اور اطلاعات کی آزادی کے حامی ہیں، یہاں بھی اور روس میں بھی۔ مزید یہ کہ ہمیں سچ کے ہتھیار کی مدد سے جھوٹ کا مقابلہ کرنا ہے۔ آپ کو گھڑی ہوئی باتوں کا حقائق ہے ہتھیار سے مقابلہ کرنا ہے۔ اس کے لیے، ہمیں آزاد اظہار رائے اور آزادی صحافت کا سہارا لینا ہوگا۔ ساتھ ہی، کچھ معاملات میں، ہمیں امریکی نقطہ نظر پیش کرنا ہوگا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ روس یہ پروپیگنڈہ پھیلا رہا ہے کہ کیئف غاصبوں کے قبضے میں ہے؛ اور یہ کہ لوگوں کو آزادی حاصل نہیں، وہ اپنے طور پر کچھ نہیں کر سکتے؛ یہاں تک کہ اُنھیں بنیادی رسد کی اشیا تک رسائی حاصل نہیں‘۔
بقول اُن کے، یہ باتیں حقیقت پر مبنی نہیں، گھڑا ہوا فسانہ، ایک سفید جھوٹ ہے۔ اور اس جھوٹ کو ٹھونسنے کی روز بروز کوششیں جاری ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، میری یہ کوشش ہے کہ میں یہ بات یقینی بناؤں کہ لوگ حقیت سے آشنا ہوں، اور اس کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
یوکرین کے دارالحکومت، کیئف میں منگل کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کی یوکرینی سروس سے ایک انٹرویو میں، اُنھوں نے کہا کہ 25 مئی کے انتخابات جمہوریت کو تقویت بخشنےاور تبدیلی کا باعث بننے کے سلسلے میں انتہائی اہم ہیں۔
بقول اُن کے، ’امریکہ اِن انتخابات کا پُر زور حامی ہے، اور یہ کہ، ہم منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کے لیے درکار ہر ممکن مدد فراہم کریں گے‘۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کو خدشات لاحق ہیں کہ انتخابات کے دوران روس مشرقی یوکرین میں مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔
اُنھوں نے یاد دلایا کہ صدر براک اوباما اور وزیر خارجہ جان کیری متعدد بار یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ روس 25 مئی کے انتخابات میں روڑے اٹکانے سے باز رہے، اور اُنھوں نے اِس امید کا اظہار کیا کہ روس رکاوٹ کھڑی کرنے کے کسی حربے سے احتراز کرے گا۔
امریکی صدر کی طرف سے روس پر نئی تعزیرات لاگو کرنے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر، رچرڈ اسٹینگل نے کہا کہ یہ فیصلہ کافی سوچ بچار کے بعد کیا گیا ہے۔ بقول اُن کے، تعزیرات ایک طریقہ کار ہے، جس ہتھیار کو کسنے سے ذمہ داری کا احساس دلایا جا سکتا ہے۔
اِس ضمن میں، اُن کا کہنا تھا کہ صدر نے فیصلہ کرتے وقت یہ بات دھیان میں رکھی ہے کہ تعزیرات متناسب اور متوازن ہوں۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر روس نے 25 مئی کے انتخابات میں مداخلت کی کوشش کی، ’تو اُسے نتائج بھگتنا پڑیں گے‘۔ بقول اُن کے، ایسے میں یہ پابندیاں مزید سخت کی جائیں گی، یا پھر اِن کو مزید شعبہ جات تک پھیلایا جائے گا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’ہم نظر رکھیں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ یہ انتخابات کس طرح ہوتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے آیا یہ آزادانہ اور منصفانہ انداز سے ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے آیا روس اِس میں کوئی مداخلت تو نہیں کرتا۔ اگر یہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوتے ہیں، تب ہی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ تعزیرات کا یہ تناسب مناسب تھا یا نہیں‘۔
روسی پروپیگنڈہ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ پروپیگنڈہ تب ہی کامیاب ہوسکتا ہے جب دوسرا نکتہ نظر موجود نہ ہو؛ اور جب جھوٹ اور ملمع سازی کو بارہا اور تواتر کے ساتھ بیان کیا جائے۔
بقول اُن کے، ’ہم آزاد میڈیا کے حامی ہیں۔ ہم اظہار اور اطلاعات کی آزادی کے حامی ہیں، یہاں بھی اور روس میں بھی۔ مزید یہ کہ ہمیں سچ کے ہتھیار کی مدد سے جھوٹ کا مقابلہ کرنا ہے۔ آپ کو گھڑی ہوئی باتوں کا حقائق ہے ہتھیار سے مقابلہ کرنا ہے۔ اس کے لیے، ہمیں آزاد اظہار رائے اور آزادی صحافت کا سہارا لینا ہوگا۔ ساتھ ہی، کچھ معاملات میں، ہمیں امریکی نقطہ نظر پیش کرنا ہوگا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ روس یہ پروپیگنڈہ پھیلا رہا ہے کہ کیئف غاصبوں کے قبضے میں ہے؛ اور یہ کہ لوگوں کو آزادی حاصل نہیں، وہ اپنے طور پر کچھ نہیں کر سکتے؛ یہاں تک کہ اُنھیں بنیادی رسد کی اشیا تک رسائی حاصل نہیں‘۔
بقول اُن کے، یہ باتیں حقیقت پر مبنی نہیں، گھڑا ہوا فسانہ، ایک سفید جھوٹ ہے۔ اور اس جھوٹ کو ٹھونسنے کی روز بروز کوششیں جاری ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، میری یہ کوشش ہے کہ میں یہ بات یقینی بناؤں کہ لوگ حقیت سے آشنا ہوں، اور اس کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔