اسلام آباد —
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پلے نے جمعرات کو ایک بیان میں رواں ہفتے 14 افغان قیدیوں کو دی جانے والی پھانسی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
منگل اور بدھ کو کابل کے نواح میں پل چرخی جیل میں 14 قیدیوں کو سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا اور اطلاعات کے مطابق صدر حامد کرزئی نے اس کی اجازت سزائے موت کے 250 قیدیوں کے مقدمات کا جائزہ لینے والی صدارتی کمیٹی کی سفارش پر دی ۔
پھانسی لگائے گئے ان قیدیوں پر قتل، زنا بالجبر، قومی سلامتی سے متعلق جرائم سمیت سنگین الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا تھا۔ افغانستان میں آخری بار سزائے موت پر عمل درآمد جون 2011ء میں ہوا تھا۔
ملک میں قانونی طریقہ کار میں سقم کے تناظر میں سزائے موت کے مقدمات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے بارہا افغانستان میں نظام قانون خصوصاً بین الاقوامی معیار کے مطابق شفاف مقدمات چلانے اور قانونی تقاضوں کی بجا آوری میں ناکامی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
افغان نظام قانون کے تحت بنیادی طور پر اعتراف جرم پر سزائیں سنائی جاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی عہدیدار ناوی پلے نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین اور افغانستان کی جانب سے عالمی معاہدے کی پاسداری کے تناظر میں سزائے موت صرف سنگین جرائم کے مرتکب افراد کے لیے رکھی جانی چاہیے اور بہت محتاط اور درست قانونی طریقہ کار کے بعد ہی اس کا اطلاق کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ’’ ماضی میں افغان عدالتی نظام میں موجود خامیاں ایسے مقدمات کے بارے میں سنگین سوالات کو جنم دے چکی ہیں۔‘‘
افغانستان میں سزائے موت پر عمل درآمد کی بحالی ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب دنیا میں عمومی طور پر اس سزا کے خاتمے کے بارے میں رجحان بڑھ رہا ہے۔ رواں ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 110 ملکوں نے سزائے موت کی منسوخی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
منگل اور بدھ کو کابل کے نواح میں پل چرخی جیل میں 14 قیدیوں کو سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا اور اطلاعات کے مطابق صدر حامد کرزئی نے اس کی اجازت سزائے موت کے 250 قیدیوں کے مقدمات کا جائزہ لینے والی صدارتی کمیٹی کی سفارش پر دی ۔
پھانسی لگائے گئے ان قیدیوں پر قتل، زنا بالجبر، قومی سلامتی سے متعلق جرائم سمیت سنگین الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا تھا۔ افغانستان میں آخری بار سزائے موت پر عمل درآمد جون 2011ء میں ہوا تھا۔
ملک میں قانونی طریقہ کار میں سقم کے تناظر میں سزائے موت کے مقدمات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے بارہا افغانستان میں نظام قانون خصوصاً بین الاقوامی معیار کے مطابق شفاف مقدمات چلانے اور قانونی تقاضوں کی بجا آوری میں ناکامی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
افغان نظام قانون کے تحت بنیادی طور پر اعتراف جرم پر سزائیں سنائی جاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی عہدیدار ناوی پلے نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین اور افغانستان کی جانب سے عالمی معاہدے کی پاسداری کے تناظر میں سزائے موت صرف سنگین جرائم کے مرتکب افراد کے لیے رکھی جانی چاہیے اور بہت محتاط اور درست قانونی طریقہ کار کے بعد ہی اس کا اطلاق کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ’’ ماضی میں افغان عدالتی نظام میں موجود خامیاں ایسے مقدمات کے بارے میں سنگین سوالات کو جنم دے چکی ہیں۔‘‘
افغانستان میں سزائے موت پر عمل درآمد کی بحالی ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب دنیا میں عمومی طور پر اس سزا کے خاتمے کے بارے میں رجحان بڑھ رہا ہے۔ رواں ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 110 ملکوں نے سزائے موت کی منسوخی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔