قرنِ افریقہ میں جاری خشک سالی کے باعث پیدا ہونے والی قحط کی صورتِ حال پر غور کے لیے اقوامِ متحدہ کی جانب سے پیر کو ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا جارہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوارک و زراعت کے مطابق روم میں ہونے والے اجلاس میں ادارے کے رکن ممالک کے وزراء اور سینئر سفارت کاروں کے علاوہ امدادی اداروں اور علاقائی بینکوں کے نمائندگان بھی شریک ہوں گے۔
قرنِ افریقہ کو ان دنوں گزشتہ چھ دہائیوں کی بدترین خشک سالی کا سامنا ہے اور اقوامِ متحدہ کے مطابق خطے کے ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد افراد کو خوارک کی فوری ضرورت ہے۔
اس سے قبل گزشتہ روز آسٹریلیا نے خطے کے لیے جاری امدادی سرگرمیوں میں شرکت کا اعلان کیا تھا۔
آسٹریلوی وزیرِخارجہ کیون رُڈ کے بقول عالمی برادری کی جانب سے امداد کی بروقت فراہمی میں ناکامی بچوں سمیت ہزاروں صومالی باشندوں کی ہلاکت پر منتج ہوسکتی ہے۔ انہوں نے یہ بیان اتوار کو صومالیہ کے دورے کے دوران دیا جس کا مقصد علاقے میں کسی انسانی المیے سے بچنے کے لیے عالمی کوششوں کی اپیل کرنا تھا۔
گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ نے صومالیہ کے دو جنوبی علاقوں باکول اور زیریں شبیلا کو قحط زدہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ صومالیہ کی لگ بھگ نصف آبادی کو امداد کی فوری ضرورت ہے۔
دریں اثناء عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ صومالیہ کے مزید پانچ علاقے قحط کےخطرے سے دوچار ہیں۔
امدادی ادارے انسانی جانوں کے تحفظ اور پڑوسی ممالک میں قائم کردہ امدادی کیمپوں کی جانب صومالی باشندوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی روکنے کے لیے صومالی علاقوں میں امداد پہنچانے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز پر القاعدہ سے منسلک صومالی شدت پسند تنظیم 'الشباب' نے اپنے زیرِکنٹرول علاقوں میں عالمی امدادی تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم گزشتہ ہفتے تنظیم نے اپنے سابق موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے اقوامِ متحدہ پر الزام عائد کیا تھا کہ اس کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر غذائی بحران کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔