اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کام کرنے والے ادارے شام کے تمام 18 محصور علاقوں تک پہنچ چکے ہیں، جسے ایک سنگ میل کہا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ پہلی بار دمشق کے باہر عربین اور زملکا کے محصور قصبہ جات میں بین الاقوامی امداد پہنچ چکی ہے، جن تک نومبر 2012ء سے لے کر رسائی حاصل نہیں تھی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بدھ کے شام گئے عربین اور زملکا کے قصبوں میں 37 ٹرکوں کا قافلہ پہنچا۔ اِن ٹرکوں میں خوراک، پینے کا پانی، صفائی، حفظان صحت اور دیگر ہنگامی رسد موجود تھی جو 20000 شامی مرد، خواتین اور بچوں کے استعمال کے لیے کافی بتائی جاتی ہے۔
اور یہ کہ بغیر کسے مسئلے کے اس رسد کو تقسیم کیا گیا۔ یہ بات شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی، جان ایجلنڈ نے بتائی ہے۔
تاہم اُنھوں نے بتایا کہ ایک واقعہ پیش آیا جب ایک ڈرائیور کو سینے میں گولی لگی، جب وہ محصور علاقے سے واپس آرہا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ زخمی ڈرائیور کو دمشق کے ایک اسپتال میں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔
بقول اُن کے، ’’تاہم، یہ معاملہ ہی ایسا ہے جس میں امداد کرتے وقت ہر قسم کا خطرہ لاحق رہتا ہے، کیونکہ شام میں ہر مقام پر مخاصمانہ کارروائیاں جاری رہتی ہیں، جب بمشکل کسی لمحے مہلت ملتی ہے۔ اس لیے، مشکلیں جھیلتے ہوئے کام کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں 18 محصور علاقوں تک پہنچنا مشکل کام تھا، جہاں کم از کم جزوی امداد پہنچ چکی ہے‘‘۔
ایجلنڈ نے بتایا کہ اِن علاقوں تک رسائی ممکن ہوئی۔ تاہم، اُنھیں اب بھی خوف ہے کہ لاکھوں لوگ ایسے ہوں گے جو فاقہ کشی کا شکار ہوں گے، جنھیں جنوری میں اقوام متحدہ کی امداد ملی تھی۔ ایسے لوگ پھر فاقہ کشی کی حالت میں ہوں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ تب سے دمشق کے قریب مدایہ اور زبادانی کے لوگوں، اور فواہ اور کفرایہ سے شمال میں ادلب کے قریب علاقوں کو مزید بین الاقوامی امداد نہیں مل پائی۔
اُنھوں نے کہا کہ دوسرا پریشان کُن معاملہ یہ ہے کہ محصور علاقوں میں ہزاروں افراد پھنسے ہوئے ہیں جنھیں اقوام متحدہ کی جانب سے طبی خدمات اور رسد کی فراہمی نہیں ہو پائی۔
بقول اُن کے، ’’اس تنازعے میں ملوث فریق، جن میں شام کی حکومت بھی شامل ہے، شہری آبادی کے لیے معالج، نرسیں، طبی انتظامات کی فراہمی کے اجازت نامے تک جاری نہیں ہونے دیتے، وہ بین الاقوامی قانون کے ضابطوں کی پاسداری پر تیار نہیں ہوتے‘‘۔
ایجلنڈ نے کہا کی لڑائی میں ملوث فریق طبی امداد کی فراہمی کی راہ میں آڑے آتے ہیں، جن کے باعث محصور علاقوں تک ڈاکٹر نہیں پہنچ پاتے، تاکہ زخمی فوجیوں کا علاج ہوسکے۔