پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انھیں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران سنگین اور مہلک خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
گو کہ حکومت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ماضی کی نسبت صحافیوں کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدام کیے گئے ہیں لیکن صورتحال پر مقامی و بین الاقوامی صحافتی تنظیمیں اب بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتی ہیں۔
پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے انسانی حقوق اور صحافیوں کے حقوق سے متعلق دو بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر پاکستان میں صحافیوں کو درپیش خطرات پر مبنی رپورٹ اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق میں جمع کروائی تھی جس کا جائزہ لے کے یہ کمیٹی اب اپنی حتمی رپورٹ رواں ماہ کے اواخر میں جاری کرنے والی ہے۔
اس رپورٹ میں صحافیوں کے قتل کے واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کے قفدان کے علاوہ آزادی اظہار رائے کو درپیش خطرات کا تذکرہ کیا گیا۔
پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی طرف سے ہفتہ کو جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اس بابت رواں ماہ ہونے والے اجلاس میں پاکستان کے حکومتی وفد سے بھی استفسار کیا تھا لیکن وفد کا اصرار تھا کہ صحافیوں کی ہلاکتوں اور ان پر حملوں کے متعدد واقعات ملک میں جاری دہشت گردی سے منسلک ہیں جن کے تدارک کے لیے حکومت نے ٹھوس اقدام کیے ہیں۔
رپورٹ میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے پیمرا کے اختیارات پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس کی طرف سے چینلز کے خلاف کارروائی کے ضابطہ کار کو مزید شفاف بنانے کی ضرورت ہے جب کہ صحافیوں پر ہونے والے مہلک حملوں کے مقدمات کے لیے خصوصی استغاثہ مقرر کیا جانا چاہیے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اور پیمرا کی شکایات سیل کے علاقائی سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن ملک میں صحافیوں کو درپیش خطرات سے اتفاق تو کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ پہلے سے موجود قوانین پر ہی اگر موثر طریقے سے عملدرآمد کر لیا جائے تو صورتحال میں قابل ذکر بہتری آ سکتی ہے۔
"میں ذاتی طور پر خصوصی عدالتوں یا خصوصی استغاثہ کے حق میں نہیں ہوں جو ملکی قوانین ہیں ان کو اپنی عملداری پوری کرنی چاہیے اور اگر کسی پر الزام ہے تو اس کے مطابق اس پر مقدمہ ہونا چاہیے، اسپشل قانون کی ضرورت نہیں ہے اس سے شک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کی عمومی خراب صورتحال کا شکار دیگر لوگوں کی طرح صحافی بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ ایک بڑی ذمہ داری ذرائع ابلاغ کے اداروں کے مالکان کی بھی ہے جو ان کے بقول صحافیوں کو خطرناک صورتحال میں رپورٹنگ کی مناسب تربیت فراہم نہیں کرتے۔