پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران صحافتی شعبے سے وابستہ افراد کو اکثر و بیشتر نامناسب حالات اور بعض اوقات مہلک صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
صرف رواں ماہ ہی ہری پور میں ایک صحافی بخشیش الہی کو نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب کہ صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے کئی واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔
فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں مبینہ طور پر انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر متعدد طلبا کو برخاست کیے جانے کے معاملے کی پیر کو کوریج کے لیے جانے والے ایک نجی ٹی وی چینل "سما" کی ٹیم کو یونیورسٹی کے سکیورٹی گارڈز نے تشدد کا نشانہ بنایا۔
منگل کو اسلام آباد میں ایک اور نجی ٹی وی چینل "دن نیوز" کی ٹیم پر ایک مدرسے کے طلبا نے تشدد کیا۔ اس بارے میں چینل کی ٹیم کا موقف ہے کہ یہ مدرسہ مبینہ طور پر بجلی چوری کر رہا تھا اور جب انھوں نے اس کی فوٹیج بنانا شروع کی تو انھیں مدرسے کے طلبا نے زدوکوب کیا اور کیمرہ بھی توڑ دیا۔
لیکن مدرسے کی انتظامیہ کا موقف ہے کہ ٹی وی چینل کی ٹیم ماہِ رمضان میں دن کے اوقات میں کھلے عام مدرسے میں پانی پی رہی تھی اور منع کیے جانے کے باوجود جب وہ اس سے باز نہ آئی تو طلبا کی ان کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی۔
ملک میں ایک دہائی سے زائد عرصے کے دوران درجنوں ٹی وی چینلز شروع ہوئے جو اس نسبتاً پر خطر شعبے سے وابستہ افراد کے لیے مزید مواقع پیدا کرنے کا سبب بنے۔ لیکن ساتھ ہی آزادی صحافت کو مختلف حلقوں کی طرف سے مسدود کرنے کے حربے بھی سامنے آنے لگے اور ماضی کی نسبت اس شعبے سے وابستہ افراد کے لیے مشکلات میں بھی اضافہ ہوا۔
تاہم ایسے تذکرے بھی عام ہوئے کہ آزدای اظہار یا صحافتی آزادی پہلے سے زیادہ ذمہ داری کا تقاضا بھی کرتی ہے جس کی بسا اوقات پاسداری دیکھنے میں نہیں آتی جو آگے چل کر کسی نہ کسی ناخوشگوار واقعے پر منتج ہوتی ہے۔
اصل حقائق سے قطع نظر کسی بھی فریق کا دوسرے پر تشدد کسی طور بھی مہذب معاشرے میں درست تصور نہیں کیا جا سکتا۔
مبصرین کے خیال میں معاشرے میں عدم برداشت اور دھونس پر مبنی رویے پروان چڑھے ہیں جس کا مظاہرہ عام دیکھنے میں آتا ہے۔
برسوں تک ابلاغیات کی تدریس سے وابستہ رہنے والے ڈاکٹر مہدی حسن پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین اور الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے 'پیمرا' کے لاہور میں شکایات سیل کے سربراہ بھی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "معاشرے کو آزادی صحافت کی عادت نہیں ہے، دوسرے صحافت میں تربیت کی کمی بھی ہے۔ چینلز کے پاس تسلی بخش جواب نہیں ہوتا کہ ان کے ہاں کون ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ کون سی خبر جانی چاہیے کون سے نہیں جانی چاہیے اور کن الفاظ میں جانی چاہیے۔"
سینیئر صحافی ضیاالدین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
"پڑھے لکھے لوگوں کی ذہنیت بھی کافی متشدد ہوتی جا رہی ہے، آزادی صحافت کے ساتھ ذمہ داری بھی ہونی چاہیے، بغیر ذمہ داری کے آزادی تو انارکی ہوگی۔۔۔ یہاں زور زبردستی سے کام چلانے کا رویہ بھی دیکھا جاتا ہے۔"
واقعے یا کسی بھی معاملے کے حقائق کو کھوجنا اور پھر اسے منظر عام پر لانا صحافیوں کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے جو کہ معاشرے اور خصوصاً جمہوری معاشرے کی صحت مندانہ اقدار کے فروغ کے لیے ضروری تصور کی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ معاشرے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اختلاف رائے کی صورت میں کسی بھی طرح کے تشدد سے اجتناب برتا جائے۔