آزادی مذہب کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ ملکوں کو توہین مذہب کے قوانین کو ختم کر دینا چاہیئے۔
ہینر بیئلفیلڈ نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ تبدیلی مذہب یا عقائد کے بارے میں ہونے والی قانون سازی اقلیتوں کے حقوق کے خلاف استعمال کی جا سکتی ہے۔
’’ریاستوں کو کسی مذہب کی توہین، تبدیلی مذہب و عقیدہ اور تبلیغ پر سزا کے لیے بنائے گئے قوانین ختم کردینے چاہیئں کیونکہ یہ کسی بھی مذہب یا عقیدہ کی اقلیت کو پوری آزادی سے اس پر عمل پیرا ہونے کے راستے میں حائل ہوتے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے اس عہدیدار کے بیان سے سعودی عرب اور پاکستان جیسے ملکوں پر توجہ مرکوز ہو گی جہاں توہین مذہب کے لیے موت کی سزا مقرر ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار یہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین مذہبی اقلیتوں کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں۔
بیئلفیلڈ کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کے قوانین آزادی اظہار کے لیے بھی خطرناک ہیں کیونکہ اس کی بھی کوئی واضح تعریب موجود نہیں۔
گو کہ بعض مغربی ممالک میں بھی توہین مذہب کے قوانین موجود ہیں جو کہ عیسائیت پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر اب استعمال میں نہیں۔ یورپ میں بعض مسلمان گروپ انھیں دوبارہ قابل عمل بنانے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں۔
ہینر بیئلفیلڈ نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ تبدیلی مذہب یا عقائد کے بارے میں ہونے والی قانون سازی اقلیتوں کے حقوق کے خلاف استعمال کی جا سکتی ہے۔
’’ریاستوں کو کسی مذہب کی توہین، تبدیلی مذہب و عقیدہ اور تبلیغ پر سزا کے لیے بنائے گئے قوانین ختم کردینے چاہیئں کیونکہ یہ کسی بھی مذہب یا عقیدہ کی اقلیت کو پوری آزادی سے اس پر عمل پیرا ہونے کے راستے میں حائل ہوتے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے اس عہدیدار کے بیان سے سعودی عرب اور پاکستان جیسے ملکوں پر توجہ مرکوز ہو گی جہاں توہین مذہب کے لیے موت کی سزا مقرر ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار یہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین مذہبی اقلیتوں کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں۔
بیئلفیلڈ کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کے قوانین آزادی اظہار کے لیے بھی خطرناک ہیں کیونکہ اس کی بھی کوئی واضح تعریب موجود نہیں۔
گو کہ بعض مغربی ممالک میں بھی توہین مذہب کے قوانین موجود ہیں جو کہ عیسائیت پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر اب استعمال میں نہیں۔ یورپ میں بعض مسلمان گروپ انھیں دوبارہ قابل عمل بنانے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں۔