اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق، حلب پر کنٹرول کے حصول کی لڑائی کے دوران مخالف فریق سے جنگی جرائم سرزد ہوئے ہیں۔
چھ برس کے تنازع کے بارے میں جاری کی گئی اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومتِ شام کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں اور قافلے کو ہدف بنانے کی کارروائی کے دوران 14 امدادی کارکن ہلاک ہوئے جب کہ امدادی کارروائیاں رُک گئیں، جو معاملہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شامی اور روسی فوجوں نے جولائی سے دسمبر کے اواخر تک جب شہر پر قبضہ ہوا، بغیر امتیاز والے ’’روزانہ فضائی حملے‘‘ جاری رکھے جن میں باغیوں کے زیر کنٹرول حلب کے کچھ حصوں پر ’کلسٹر بم‘ برسائے گئے۔
بغیر امتیاز کی نوعیت کے حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے اور اسپتال ملبے کا ڈھیر بنے۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کار یہ طے نہیں کر پائے آیا شامی اور روسی افواج حلب کے حملوں میں ملوث رہیں، چونکہ خطے کی فضائی حدود کی وہی مشترکہ نگرانی کر رہی تھیں، ’’جس دورانیئے کا ذکر اس تجزئے میں کیا گیا ہے‘‘۔
رپورٹ کے مطابق، جس میں روس کی جانب سے جنگی جرائم کا ذکر نہیں ہے، کہا گیا ہے کہ ’’(اُنھوں) نے اکثر وہی طیارے اور ہتھیار استعمال کیے، اس لیے متعدد معاملوں میں الگ سے کوئی شمار ناممکن تھا‘‘۔
یہ رپورٹ بدھ کے روز جاری ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’سال 2016ء بھر‘‘ حلب پر شامی ہیلی کاپٹروں میں ممنوعہ ہتھیار نصب کیے جاتے رہے، جیسا کہ زہریلے کلورین بم، جن کے نتیجے میں سیکنڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مخالف فوجوں کو ’’ہتھیار ڈالو یا فاقہ کشی کا شکار ہوجاؤ‘‘ جیسے احکامات کے دوران 5000 سے زائد حکومت کی حامی فوجوں نے مشرقی حلب کا محاصرہ کیے رکھا۔
شہری آبادی کی ہلاکتیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مخالف گروہوں کی جانب سے مغربی حلب کے سرکاری کنٹرول والے حصے پر کی جانے والی گولہ باری کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ اِن گروہوں نے شہری آبادی کو مشرقی حلب چھوڑنے کی بھی اجازت نہیں دی اور اُنھیں ’’انسانی ڈھال‘‘ کے طور پر استعمال کیا؛ جب کہ اُنھوں نے کُرد رہائشی ضلع پر حملہ کیا، جو دونوں ہی اقدام جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔