واشنگٹن —
اقوام ِمتحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے منگل کے روز کہا ہے کہ برما میں ہونے والے حالیہ فسادات واضح طور پر بُدھ قوم کی جانب سے مسلمان اقلیت کے خلاف تھے۔
برما کے لیے اقوام ِمتحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خاص مشیر وجے نمبیار نے حال ہی میں برما کا دورہ کیا ہے۔ انہوں نے برما میں مقامی عہدیداروں اور ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمانوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔
تھائی لینڈ سے فون کے ذریعے نیو یارک میں نامہ نگاروں سے گفتگو میں وجے نمبیار کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسی عارضی پناہ گاہوں کا دورہ کیا جہاں 9000 کے قریب افراد نے پناہ لے رکھی ہے۔ ان میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ وہ میختیلا شہر کے وسطی علاقوں میں پھوٹنے والے فسادات اور اپنے گھروں پر ہونے والے حملوں کے بعد، جس میں درجنوں مسلمان ہلاک ہوئے، یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ وجے نمبیار نے ان حملوں کو ’سفاک حملے‘ قرار دیا۔
وجے نمبیار کے الفاظ، ’پناہ گاہوں میں موجود لوگ صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ لیکن میں نے وہاں پر ایک چیز یہ نوٹ کی کہ قتل و غارت گری ان لوگوں کے لیے ایک حیران کن چیز تھی۔ کیونکہ ان کی نسلیں بدھ مت کے پیروکاروں کے ساتھ عرصے سے یہیں رہتی رہی ہیں۔ ان لوگوں کے لیے یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟‘
وجے نمبیار کا کہنا تھا کہ عارضی ٹھکانوں میں مقیم یہ افراد جلد از جلد اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومتی عہدیداروں کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے ظلم کا نشانہ بنائے جانے والے ان لوگوں کی تلافی کا مداوا کرنے کو بھی کہا ہے۔
یہ فسادات گذشتہ ہفتے تب شروع ہوئے جب میختیلا میں ایک مسلمان سنار کی دکان میں مالک ِمکان اور بدھ مت کے پیروکار گاہک کے درمیان تنازعے نے ہوا پکڑی اور یہ سلسلہ بالآخر میختیلا کی سڑکوں تک پھیل گیا۔
برما کے لیے اقوام ِمتحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خاص مشیر وجے نمبیار نے حال ہی میں برما کا دورہ کیا ہے۔ انہوں نے برما میں مقامی عہدیداروں اور ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمانوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔
تھائی لینڈ سے فون کے ذریعے نیو یارک میں نامہ نگاروں سے گفتگو میں وجے نمبیار کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسی عارضی پناہ گاہوں کا دورہ کیا جہاں 9000 کے قریب افراد نے پناہ لے رکھی ہے۔ ان میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ وہ میختیلا شہر کے وسطی علاقوں میں پھوٹنے والے فسادات اور اپنے گھروں پر ہونے والے حملوں کے بعد، جس میں درجنوں مسلمان ہلاک ہوئے، یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ وجے نمبیار نے ان حملوں کو ’سفاک حملے‘ قرار دیا۔
وجے نمبیار کے الفاظ، ’پناہ گاہوں میں موجود لوگ صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ لیکن میں نے وہاں پر ایک چیز یہ نوٹ کی کہ قتل و غارت گری ان لوگوں کے لیے ایک حیران کن چیز تھی۔ کیونکہ ان کی نسلیں بدھ مت کے پیروکاروں کے ساتھ عرصے سے یہیں رہتی رہی ہیں۔ ان لوگوں کے لیے یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟‘
وجے نمبیار کا کہنا تھا کہ عارضی ٹھکانوں میں مقیم یہ افراد جلد از جلد اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومتی عہدیداروں کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے ظلم کا نشانہ بنائے جانے والے ان لوگوں کی تلافی کا مداوا کرنے کو بھی کہا ہے۔
یہ فسادات گذشتہ ہفتے تب شروع ہوئے جب میختیلا میں ایک مسلمان سنار کی دکان میں مالک ِمکان اور بدھ مت کے پیروکار گاہک کے درمیان تنازعے نے ہوا پکڑی اور یہ سلسلہ بالآخر میختیلا کی سڑکوں تک پھیل گیا۔