رسائی کے لنکس

امریکی نظام انصاف میں منظم نسل پرستی کے خاتمے کے لیے اصلاحات کی جائیں: اقوام متحدہ


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے جمعرات کو ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں انسانی حقوق کے ماہرین نے امریکہ کےکرمنل جسٹس سسٹم میں فوری اصلاحات کی اپیل کی ہے تاکہ اس مسئلے کا مقابلہ کیا جائے جسے وہ افریقی نژاد امریکیوں کے خلاف منظم نسل پرستی قرار دیتے ہیں ۔

32 صفحات کی رپورٹ کےمطابق امریکہ میں نسل پرستی ،جو عشروں کی غلامی اور غلاموں کی تجارت کی میراث ہے اب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سےنسل کی بنیاد پرلوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک ، پولیس کےہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی دوسری خلاف ورزیوں کی شکل میں موجود ہے ۔

اقوام متحدہ کی ایک غیر جانبدار ماہر ، Tracie Keesee نے کونسل کو بتایا کہ ،ہم نے امریکہ کے کرمنل نظام انصاف میں افریقی نژاد امریکیوں کی غیر متناسب نمائندگی دیکھی ہے۔

ٹریسی کیسی ،نفاذ قانون کے حوالے سے نسلی انصاف اور مساوات کے فروغ کے ایک ادارے ، انٹر نیشنل انڈیپینڈینس ایکسپرٹ میکنزم کے تین ارکان میں سے ایک ہیں ۔ یہ میکنزم کونسل نے افریقی امریکی شہری جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد قائم کیا تھا جو مئی 2020 میں منی سوٹا میں پولیس افسروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے ۔

میکنزم کی رپورٹ منظم نسل پرستی کی اصل وجوہات کی چھان بین کے لیے تفتیش کاروں کے اپریل اور مئی میں امریکہ کے چھ بڑے شہروں کے ایک بارہ روزہ دورے کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہے ۔ انہوں نے پانچ حراستی مراکز کا دورہ کیا ، عہدے داروں اور سول سوسائٹی کے گروپس سے ملاقات کی اور 133 متاثرہ افرادسے براہ راست انٹر ویوز کیے۔

کیسی نے اس سنگین مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان اعداد و شمار اور حالات کو دیکھ کر پریشان ہو گئے جن میں افریقی نژادامریکیوں کی ایک غیر متناسب تعداد پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہو رہی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہر سال ملک بھر میں 1000 سے زیادہ افراد مبینہ طور پر قانون نافذ کرنےوالے اداروں کے ہاتھوں ہلاک ہوتے ہیں ۔ دستیاب اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونےوالے سیاہ فام لوگوں کی تعداد سفید فام لوگوں کی نسبت تین گنا زیادہ تھی۔اور ان کےگرفتار کیے جانے کا امکان 4 اعشاریہ 5 فیصد زیادہ تھا۔

جارج فلائیڈ کی برسی پر ایک مظاہرے کا منظر ، فائل فوٹو
جارج فلائیڈ کی برسی پر ایک مظاہرے کا منظر ، فائل فوٹو

کیسی نے ذہنی صحت کے بحران ، تعلیم ، بے گھری اور ٹریفک کنٹرول کے سسٹم میں پولیس ریسپانس کے بڑھتے ہوئے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا جس سے سیاہ فام افراد غیر متناسب طریقے سے متاثر ہورہے ہیں۔

تفتیش کاروں کو معلوم ہوا کہ امریکہ کی جیلوں میں قید تمام خواتین کا 34 فیصد افریقی امریکی خواتین پر مشتمل تھا اور انہیں اپنی سفید فام ساتھی قیدیوں کی نسبت سختی یا بیڑیوں میں جکڑے جانے کا زیادہ سامنا ہو سکتا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ میکنزم نے بیڑیوں میں جکڑی ان حاملہ خواتین سے براہ راست گفتگو کی اور ان سے یہ ناقابل برداشت تکلیف دہ گواہی براہ راست سنی کہ وہ بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے بچے کی پیدائش کے دوران اپنے بچے ضائع کر بیٹھیں ۔

تفتیشی ٹیم نےبچوں کی ایک بڑی تعداد کو قید میں رکھے جانے پر بھی افسوس کا اظہار کیا جن میں سے بہت سوں کو بالغ قیدیوں کی جیلوں میں رکھا گیا تھا۔ تفتیشی ٹیم نے کہا کہ صرف 2019 میں 24 ہزار سے زیادہ بچے بالغ اور نابالغ افراد کی جیلوں میں قید میں تھے ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاہ فام بچوں کو اپنے سفید فام ہم عمرساتھیوں کے مقابلے میں نابالغ افراد کی جیلوں میں رکھنے کا امکان چار گنا زیادہ تھا اور یہ کہ ان میں سے بہت سے بچوں کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔

کیسی نے امریکی حکومت سے غلامی کے دور کی میراث سے عہدہ بر آ ہونے کی اپیل کی ہےجس کے نتیجے میں ابھی تک امتیازی سلوک کا سلسلہ جاری ہے ، انہوں نے" پولیسنگ "کے متبادل طریقے اختیار کرنے پر بھی زور دیاہے ۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں امریکہ کی سفیر مشیل ٹیلر نے تسلیم کیا کہ امریکہ اور بیرون ملک قانون نافذ کرنے والے اداروں اورکرمنل جسٹس سسٹم میں افریقی نژاد افراد کے خلاف منظم نسل پرستی صدیوں سےموجود ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد نیو یارک میں ایک مظاہرے کا منظر، فائل فوٹو
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد نیو یارک میں ایک مظاہرے کا منظر، فائل فوٹو

انہوں نے کہا کہ واشنگٹن نسلی انصاف اور مساوات کے فروغ اور جہاں کہیں بھی منظم نسل پرستی واقع ہوتی ہے اسے روکنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بدستور پرعزم ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ منظم نسل پرستی کے اثرا ت سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کر رہی ہے جن میں محفوظ، موثر اور قابل احتساب کمیونٹی پولیسنگ اوراسی طرح فوجداری نظام انصاف کو بہتر بنانا شامل ہے ۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ڈپٹی ہائی کمشنر ندا الناشیف نے ، کہا کہ ہائی کمشنر وولکر ترک کی ایک رپورٹ سےپتہ چلا ہے کہ جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد سے منظم نسل پرستی کے سد باب کے لیے کچھ مثبت اقدامات کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر ، منیاپولس میں جارج فلائیڈ کے قتل میں ملوث پولیس کے چاروں سابق افسروں کو ریاستی اور وفاقی عدالتوں نے قید کی سزائیں دی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس کےعلاوہ ، 35 سالہ کیون کلارک کے کیس کی برطانوی عہدے داروں نے از سر نو تفتیش کی ۔ کلارک وہ سیاہ فام شخص تھے جو ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا تھے اور جو 2018 میں لند ن میں میٹرو پولیٹن پولیس افسروں کی سختی کے بعد ہلاک ہوئے تھے ۔

اپنی حاصل کردہ معلومات کی بنیا د پر مشیل نے کہا کہ پولیس کے رویے سےمتعلق غیر جانبدار دفتر نے اعلان کیاہے کہ دو پولیس افسرو ں کو سنگین بد دیانتی پر اورایک پولیس افسر کو سخت نا اہلی پر کارروائیوں کا سامنا ہو گا۔

مشیل نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ قانون نافذ کرنے والو ں کے ساتھ کسی سامنے کے بعد سیاہ فام افراد کی زیادہ تر اموات میں احتساب اور ازالے کے سلسلے میں پیش رفت کا فقدان رہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کے حصول کی جدو جہد میں خاندان خاطر خواہ ریاستی مدد کے بغیرصبر آزما قانونی کارروائیو ں اور شدید جذباتی اور مالی مسائل کا مسلسل سامنا کر رہے ہیں ۔

(لیزا شیلائن وی او اے نیوز)

فورم

XS
SM
MD
LG