واشنگٹن —
اقوام ِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے مالی میں فرانسیسی اور مالی افواج کے ہاتھوں علاقے کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کے بعد وہاں پر اقوام ِ متحدہ کی امن فوج کی تعیناتی کے امکان پر بحث کا آغاز کر دیا ہے۔
گذشتہ برس دسمبر میں سیکورٹی کونسل نے افریقی ممالک کی تنظیم AFISMA کی جانب سے مالی میں تین ہزار فوجی تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔ یہ فوج ستمبر یا اکتوبر میں ایک سال کے لیے مالی کے ان شمالی علاقوں میں تعینات کی جانی تھی جو اسلام پسند شدت پسندوں کے قبضے میں تھے تاکہ یہ علاقے واپس حاصل کیے جا سکیں۔
جنوری کے مہینے میں شدت پسندوں کے جارحانہ حملوں کے بعد مالی میں فرانسیسی فوج تعینات کر دی گئی تھی۔ جس نے جنگجوؤں کو انکے محفوظ ٹھکانوں سے باہر نکال دیا تھا۔ اقوام ِ متحدہ کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے علاقے کی صورتحال بدل گئی ہے۔ ان کے مطابق مالی میں افریقی ممالک کی فوج کو اقوام ِ متحدہ کے زیر ِ انتظام مشن میں تبدیل کیا جائے گا۔
اقوام ِ متحدہ کے لیے فرانس کے سفیر نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں بتایا کہ علاقے میں امن فوج کی تعیناتی سے پہلے مالی کے حالات کا مستحکم ہونا ضروری ہے۔ ان کے الفاظ، ’’ہم ابھی وہاں امن فوج نہیں بھیج رہے، لیکن اسکا امکان موجود ہے۔ میں نے سیکورٹی کونسل میں پہلی مرتبہ اس معاملے کو اٹھایا اور زور دیا کہ مالی میں امن فوج تب ہی تعینات کی جا سکتی ہے جب وہاں پر سیکورٹی کے معاملات اس کی اجازت دیں۔ ہمیں ابھی شاید وہاں پر سیکورٹی کے معاملات کی جانچ کے لیے کئی ہفتوں تک انتظار کرنا ہوگا اور تبھی مالی میں امن فوج کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا ممکن ہوسکے گا۔‘‘
اقوام ِ متحدہ کے سفارتکاروں نے ذاتی حیثیت میں بتایا کہ مالی کے لیے امن فوج کی تعیناتی کے لیے قرارداد فروری کے آخر سے پہلے منظور کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اس کے بعد بھی افریقی فوج کو اقوام ِ متحدہ کی امن فوج میں بدلنے کے لیے دو ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
اقوام ِ متحدہ میں امن فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی مالی میں مختلف امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کے الفاظ، ’’اس پر کام ہو رہا ہے۔ لیکن میرے خیال میں سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ مالی میں امن فوج وہاں پر سیکورٹی کی صورتحال دیکھ کر ہی تعینات کی جائے۔‘‘
مالی میں امن فوج کی تعیناتی کے لیے سیکورٹی کونسل کو فوج کی تعداد، اختیارات اور حدود کا تعین کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اقوام ِ متحدہ کو مالی حکومت کی جانب سے میزبان ملک ہونے کی منظوری اور افریقی یونین اور جنوبی افریقی خطے کی تنظیم ایکووس کے ساتھ معاہدہ بھی درکار ہوگا۔
گذشتہ برس دسمبر میں سیکورٹی کونسل نے افریقی ممالک کی تنظیم AFISMA کی جانب سے مالی میں تین ہزار فوجی تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔ یہ فوج ستمبر یا اکتوبر میں ایک سال کے لیے مالی کے ان شمالی علاقوں میں تعینات کی جانی تھی جو اسلام پسند شدت پسندوں کے قبضے میں تھے تاکہ یہ علاقے واپس حاصل کیے جا سکیں۔
جنوری کے مہینے میں شدت پسندوں کے جارحانہ حملوں کے بعد مالی میں فرانسیسی فوج تعینات کر دی گئی تھی۔ جس نے جنگجوؤں کو انکے محفوظ ٹھکانوں سے باہر نکال دیا تھا۔ اقوام ِ متحدہ کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے علاقے کی صورتحال بدل گئی ہے۔ ان کے مطابق مالی میں افریقی ممالک کی فوج کو اقوام ِ متحدہ کے زیر ِ انتظام مشن میں تبدیل کیا جائے گا۔
اقوام ِ متحدہ کے لیے فرانس کے سفیر نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں بتایا کہ علاقے میں امن فوج کی تعیناتی سے پہلے مالی کے حالات کا مستحکم ہونا ضروری ہے۔ ان کے الفاظ، ’’ہم ابھی وہاں امن فوج نہیں بھیج رہے، لیکن اسکا امکان موجود ہے۔ میں نے سیکورٹی کونسل میں پہلی مرتبہ اس معاملے کو اٹھایا اور زور دیا کہ مالی میں امن فوج تب ہی تعینات کی جا سکتی ہے جب وہاں پر سیکورٹی کے معاملات اس کی اجازت دیں۔ ہمیں ابھی شاید وہاں پر سیکورٹی کے معاملات کی جانچ کے لیے کئی ہفتوں تک انتظار کرنا ہوگا اور تبھی مالی میں امن فوج کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا ممکن ہوسکے گا۔‘‘
اقوام ِ متحدہ کے سفارتکاروں نے ذاتی حیثیت میں بتایا کہ مالی کے لیے امن فوج کی تعیناتی کے لیے قرارداد فروری کے آخر سے پہلے منظور کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اس کے بعد بھی افریقی فوج کو اقوام ِ متحدہ کی امن فوج میں بدلنے کے لیے دو ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
اقوام ِ متحدہ میں امن فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی مالی میں مختلف امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کے الفاظ، ’’اس پر کام ہو رہا ہے۔ لیکن میرے خیال میں سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ مالی میں امن فوج وہاں پر سیکورٹی کی صورتحال دیکھ کر ہی تعینات کی جائے۔‘‘
مالی میں امن فوج کی تعیناتی کے لیے سیکورٹی کونسل کو فوج کی تعداد، اختیارات اور حدود کا تعین کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اقوام ِ متحدہ کو مالی حکومت کی جانب سے میزبان ملک ہونے کی منظوری اور افریقی یونین اور جنوبی افریقی خطے کی تنظیم ایکووس کے ساتھ معاہدہ بھی درکار ہوگا۔