واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان نے شام کی حکومت کے خلاف کونسل میں پیش کی جانے والی ایک قرارداد کے مسودے پر مذاکرات شروع کردیے ہیں۔
مذکورہ قرارداد برطانیہ نے سلامتی کونسل کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں پیش کی جس میں عالمی ادارے سے کہا گیا ہے کہ وہ شام میں مزید کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے اور عام شہریوں کی حفاظت کے لیے "تمام ضروری اقدامات" کرے۔
برطانوی سفارت کار اِس قرارداد کی منظوری کے لیے سلامتی کونسل کے ارکان پر دباؤ ڈال رہے ہیں جو ممکنہ طور پر آگے چل کر شام پر کسی فوجی حملے کی بنیاد بن سکتی ہے۔
برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے اقوامِ متحدہ پر شام کے معاملے میں پس و پیش سے کام لینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈھائی برسوں کی بے عملی کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ سلامتی کونسل اس تنازع میں اپنا کردار ادا کرے۔
اقوامِ متحدہ کے لیے 'وائس آف امریکہ' کے نامہ نگار کے مطابق سلامتی کونسل کے بدھ کو ہونے والے اجلاس کے بعد پانچوں مستقل ارکان – امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین – کے سفارت کاروں نے اجلاس کی کاروائی کے بارے میں صحافیوں کو کچھ بتانے سے گریز کیا۔
نامہ نگار کے مطابق روس اور چین کے سفیر اختتام سے قبل ہی اجلاس سے اٹھ کر باہر آگئے تھے جس سے یہ تاثر ملا کہ شاید انہوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا ہے۔
خیال رہے کہ دونوں ملک ماضی میں شامی حکومت کے خلاف پیش کی جانے والی قراردادوں کو ویٹو کرتے رہے ہیں۔
دریں اثنا شام کی حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے دمشق کے نواح میں ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
شام کے نائب وزیرِ خارجہ فیصل مقداد نے الزام عائد کیا ہے کہ کیمیائی حملوں میں مغربی ممالک کے حمایت یافتہ "دہشت گرد" ملوث ہیں۔
خیال رہے کہ شامی حکومت باغیوں کے لیے دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ میں شام کے سفیر بشار جعفری نے مطالبہ کیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے معائنہ کار شامی افواج کے خلاف زہریلی گیس کے تین نئے حملوں کے الزامات کی تحقیقات کریں۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر شام پر حملہ کیا گیا تو اسے اپنے دفاع میں کاروائی کا حق حاصل ہے۔
مذکورہ قرارداد برطانیہ نے سلامتی کونسل کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں پیش کی جس میں عالمی ادارے سے کہا گیا ہے کہ وہ شام میں مزید کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے اور عام شہریوں کی حفاظت کے لیے "تمام ضروری اقدامات" کرے۔
برطانوی سفارت کار اِس قرارداد کی منظوری کے لیے سلامتی کونسل کے ارکان پر دباؤ ڈال رہے ہیں جو ممکنہ طور پر آگے چل کر شام پر کسی فوجی حملے کی بنیاد بن سکتی ہے۔
برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے اقوامِ متحدہ پر شام کے معاملے میں پس و پیش سے کام لینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈھائی برسوں کی بے عملی کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ سلامتی کونسل اس تنازع میں اپنا کردار ادا کرے۔
اقوامِ متحدہ کے لیے 'وائس آف امریکہ' کے نامہ نگار کے مطابق سلامتی کونسل کے بدھ کو ہونے والے اجلاس کے بعد پانچوں مستقل ارکان – امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین – کے سفارت کاروں نے اجلاس کی کاروائی کے بارے میں صحافیوں کو کچھ بتانے سے گریز کیا۔
نامہ نگار کے مطابق روس اور چین کے سفیر اختتام سے قبل ہی اجلاس سے اٹھ کر باہر آگئے تھے جس سے یہ تاثر ملا کہ شاید انہوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا ہے۔
خیال رہے کہ دونوں ملک ماضی میں شامی حکومت کے خلاف پیش کی جانے والی قراردادوں کو ویٹو کرتے رہے ہیں۔
دریں اثنا شام کی حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے دمشق کے نواح میں ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
شام کے نائب وزیرِ خارجہ فیصل مقداد نے الزام عائد کیا ہے کہ کیمیائی حملوں میں مغربی ممالک کے حمایت یافتہ "دہشت گرد" ملوث ہیں۔
خیال رہے کہ شامی حکومت باغیوں کے لیے دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ میں شام کے سفیر بشار جعفری نے مطالبہ کیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے معائنہ کار شامی افواج کے خلاف زہریلی گیس کے تین نئے حملوں کے الزامات کی تحقیقات کریں۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر شام پر حملہ کیا گیا تو اسے اپنے دفاع میں کاروائی کا حق حاصل ہے۔