|
اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک پینل نے افغانستان میں طالبان جیسی حکومتوں کے تحت خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ روا شدید جبر کو اجاگر کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صنفی تعصب کو باضابطہ طور پر انسانیت کے خلاف ایک جرم کے طور پر تسلیم کرے ۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے سے منسلک، امریکہ ، چین، میکسیکو ، یوگنڈا اور سربیا کے ماہرین کے پانچ رکنی گروپ نے کہا ہے کہ اس تعصب کو جرم تسلیم کرنے میں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے ۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا،" صنفی تعصب محض ایک ممکنہ آئیڈیا یا کوئی قانونی نظریہ نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کی لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک حقیقی خطرہ اور زندہ حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جسے اس وقت بین الاقوامی قانون میں باضابطہ طور پر شامل نہیں کیا گیا۔ "
ایک واضح مثال کے طور پر افغانستان کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ طالبان کی حکومت نے صنفی بنیاد پر "تعصب، جبر اور تسلط" کے نظام کو ادارے کی شکل دی ہے۔
اقوام متحدہ کا آرٹیکل 2
اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے، طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کو چٹھی جماعت کے بعد اسکول کی تعلیم، بیشتر کام کی جگہوں، بہت سی تفریحی سرگرمیوں اور طویل فاصلوں پر کسی محرم کے بغیر سفر کرنے سے روک دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا کہ ، "ایسےریاستی قوانین، پالیسیاں اور رویے، جو خواتین کے انسانی حقوق کو مؤثر طریقے سے ختم کرنے کے ارادے کے ساتھ، انہیں انتہائی عدم مساوات اور جبر سے دوچار کرتے ہیں، نسل پرستی کے نظام کی بنیادی عکاسی کرتے ہیں۔"
پینل نےاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی چھٹی کمیٹی پر زور دیا ہے کہ وہ صنفی تعصب کو آرٹیکل 2 کے تحت شامل کرنے پر غور کرے، جو انسانیت کے خلاف جرائم کی روک تھام اور سزا سے متعلق ہے۔
پچھلے سال کے دوران، انسانی حقوق کے متعدد گروپوں اور خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے بین الاقوامی برادری پر طالبان کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف اقدام کرنے پر زور دیتے ہوئے اسی طرح کے مطالبے کیے ہیں.
تاہم بین الاقوامی طور پر تسلیم نہ کیے جانے اور دہشت گردی سے منسلک پابندیوں کے باوجود، طالبان کے حکام اپنی صنفی پابندیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا تعلق اسلامی اقدار اور روایات سے ہے۔
امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندیوں نے افغانستان کے پہلے سے کمزور صحت کے شعبے کو نقصان پہنچایا ہے کیونکہ ملک میں ایک سال سے ایک بھی ڈاکٹر سامنے نہیں آیا ہے۔
اقوام متحدہ نے بارہا خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں کوالیفائڈ ہیلتھ ورکرز کی بالعموم اور خواتین ہیلتھ ورکرز کی بالخصوص کمی کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل گوتئریس نے منگل کو ایک بار پھر کہا کہ طالبان کو لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی اور خواتین کی ملازمت پر پابندی ختم کردینی چاہیے۔
ایک اچھی خبر
طالبان کے زیر انتظام سرکاری باختر نیوز ایجنسی نے منگل کو بتایا کہ طالبان نے مبینہ طور پر افغانستان میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل لڑکیوں کو مارچ میں شروع ہونے والے نئے تعلیمی سال کے لیے سرکاری میڈیکل اداروں میں داخلہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔
ایجنسی کے مطابق کابل میں صحت عامہ کی وزارت کے ایک ڈائریکٹو کے بعد ایک درجن سے زیادہ افغان صوبوں میں داخلے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ایجنسی نے اس بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کیں۔
وزارت کے اس حکم پر افغان حکام کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
فورم