واشنگٹن —
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ، اقوام متحدہ نے بھی ایران میں حالیہ دنوں کے دوران دی جانے والی موت کی سزاؤں پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بدھ کے روز ایک بیان میں، عالمی ادارے نے ایران پر زور دیا کہ موت کی سزائیں دینا بند کی جائیں۔ بقول اُس کے، اِس سال پھانسیوں کی سزاؤں پر عمل درآمد کے سلسلے میں ’اچانک تیزی‘ آگئی ہے۔
اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کے ادارے نے کہا ہے کہ اِن رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جنوری کے ابتدائی دو ہفتوں کے دوران کم از کم 40 افراد کو موت کے گھاٹ چڑھا دیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 2013ء میں مجموعی طور پر 625افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا، جن میں کچھ سیاسی قیدی اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں منشیات سے متعلق جرائم پر سزائیں سنائی گئی تھیں۔
اقوام متحدہ کے اس بیان پر فوری طور پر ایران کا ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
سرسری مقدمات سے متعلق اقوام متحدہ کے نمائندہٴ خصوصی، کرسٹوف ہائینز نے کہا ہے کہ یہ بات سخت تشویش کا باعث ہے کہ ایران ایسے جرائم پر پھانسی پر عمل درآمد کرتا ہے جو بین الاقوامی قانون کے اعتبار سے ’بے حد سنگین جرائم‘ کے زمرے میں نہیں آتے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں، ایران میں تعینات اقوام متحدہ کے نمائندہٴ خصوصی برائے انسانی حقوق، احمد شہید نے کہا ہے کہ ساتھ ہی، پھانسی کی سزاؤں پر منصفانہ عمل درآمد کا معاملہ بھی تشویش کا باعث ہے۔
احمد شہید کے بقول، ’ہاں، اولین تشویش کی باعث بات یہ رپورٹیں ہیں کہ اِن مقدمات کے دوران، حقوق کے تحفظ کا قطعاً کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ سب سے بڑی تشویش تو یہ ہے کہ اِن میں سے بہت سی سزائیں مناسب نہیں ہیں، اس لیے کہ عام خیال یہ ہے کہ ملزمان سے زبردستی اقبالِ جرم کرانے کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں، جب کہ عدالت میں ملزموں کے دفاع کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے‘۔
اِس سے قبل، اسی ماہ کے اوائل میں، ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے ایران پر زور دیا تھا کہ پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد کے معاملات کو عارضی التوا میں ڈال دینا چاہیئے، اور بقول اُس کے، ایران کی طرف سے موت کی سزا کے معاملات کو ’صیغہٴراز‘ میں رکھا جاتا ہے۔
ایک اور بیان میں، ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے بھی سزاؤں کو تعطل میں ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے، کہا ہے کہ ایران میں پھانسیوں کی سزاؤں کی شرح بہت بڑھ چکی ہے۔
نومبر میں فرانسسی اخبار ’لے موندے‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، ایرانی وزیر خارجہ، محمد جاوید ظریف نے کہا تھا کہ ایران میں سیاسی بنیادوں پر کسی کو بھی پھانسی کی سزا نہیں ہوئی۔
اُنھوں نے ایران کے نظام ِ انصاف کو ’منصفانہ‘ قرار دیا۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے ملک کے لیے اِن معاملات میں مزید درستگی کی گنجائش موجود ہے۔
بدھ کے روز ایک بیان میں، عالمی ادارے نے ایران پر زور دیا کہ موت کی سزائیں دینا بند کی جائیں۔ بقول اُس کے، اِس سال پھانسیوں کی سزاؤں پر عمل درآمد کے سلسلے میں ’اچانک تیزی‘ آگئی ہے۔
اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کے ادارے نے کہا ہے کہ اِن رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جنوری کے ابتدائی دو ہفتوں کے دوران کم از کم 40 افراد کو موت کے گھاٹ چڑھا دیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 2013ء میں مجموعی طور پر 625افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا، جن میں کچھ سیاسی قیدی اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں منشیات سے متعلق جرائم پر سزائیں سنائی گئی تھیں۔
اقوام متحدہ کے اس بیان پر فوری طور پر ایران کا ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
سرسری مقدمات سے متعلق اقوام متحدہ کے نمائندہٴ خصوصی، کرسٹوف ہائینز نے کہا ہے کہ یہ بات سخت تشویش کا باعث ہے کہ ایران ایسے جرائم پر پھانسی پر عمل درآمد کرتا ہے جو بین الاقوامی قانون کے اعتبار سے ’بے حد سنگین جرائم‘ کے زمرے میں نہیں آتے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں، ایران میں تعینات اقوام متحدہ کے نمائندہٴ خصوصی برائے انسانی حقوق، احمد شہید نے کہا ہے کہ ساتھ ہی، پھانسی کی سزاؤں پر منصفانہ عمل درآمد کا معاملہ بھی تشویش کا باعث ہے۔
احمد شہید کے بقول، ’ہاں، اولین تشویش کی باعث بات یہ رپورٹیں ہیں کہ اِن مقدمات کے دوران، حقوق کے تحفظ کا قطعاً کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ سب سے بڑی تشویش تو یہ ہے کہ اِن میں سے بہت سی سزائیں مناسب نہیں ہیں، اس لیے کہ عام خیال یہ ہے کہ ملزمان سے زبردستی اقبالِ جرم کرانے کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں، جب کہ عدالت میں ملزموں کے دفاع کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے‘۔
اِس سے قبل، اسی ماہ کے اوائل میں، ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے ایران پر زور دیا تھا کہ پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد کے معاملات کو عارضی التوا میں ڈال دینا چاہیئے، اور بقول اُس کے، ایران کی طرف سے موت کی سزا کے معاملات کو ’صیغہٴراز‘ میں رکھا جاتا ہے۔
ایک اور بیان میں، ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے بھی سزاؤں کو تعطل میں ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے، کہا ہے کہ ایران میں پھانسیوں کی سزاؤں کی شرح بہت بڑھ چکی ہے۔
نومبر میں فرانسسی اخبار ’لے موندے‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، ایرانی وزیر خارجہ، محمد جاوید ظریف نے کہا تھا کہ ایران میں سیاسی بنیادوں پر کسی کو بھی پھانسی کی سزا نہیں ہوئی۔
اُنھوں نے ایران کے نظام ِ انصاف کو ’منصفانہ‘ قرار دیا۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے ملک کے لیے اِن معاملات میں مزید درستگی کی گنجائش موجود ہے۔