واشنگٹن —
متحدہ عرب امارات کی سلامتی سے متعلق ریاستی عدالت نے ملک میں ’اخوان المسلمون‘ کی شاخ قائم کرنے پر 30 افراد کو پانچ برس قید کی سزا سنائی ہے۔
ابو ظہبی سے ’وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار، والٹر ویلمن نے رپورٹ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس گروہ کے افراد میں سے 20 کا تعلق مصر سے، جب کہ 10 کا امارات سے ہے؛ جب کہ حکام کی طرف سے قید کیے جانے والے مبینہ اسلام پرستوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
اُن پر لگائے گئے الزامات میں اخوان المسلمون کی ’بین الاقوامی‘ شاخ چلانے کے علاوہ ، استغاثے کا کہنا ہے کہ اِن افراد نے حکومت کی خفیہ معلومات بھی چرائی اور اجازت کے بغیر اپنی تنظیم کے لیے چندہ جمع کیا۔
الزامات کو مسترد کرتے ہوئے، ملزمان نے کہا ہے کہ پولیس حراست کے دوران اُن پر تشدد کیا گیا۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ مقدمے کے دوران، جو پانچ نومبر سے شروع ہوا، مقدمے کی پیروی کے دوران، اُنھیں مناسب قانونی امداد سے محروم رکھا گیا۔
حکومت نے اِس بات کا بارہا اعادہ کیا ہے کہ تشدد کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا جائے۔
ایک علیحدہ مقدمے میں جس کی کارروائی جولائی میں مکمل ہوئی، 69 اسلام پرست، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ’الاصلاح‘ نامی مقامی گروہ سے ہے، وہ متحدہ عرب امارات کے سیاسی نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرنے میں ملوث پائے گئے، جنھیں 15 برس تک کی سزا ہوئی ہے۔
کرسچین کوچ، جنیوا میں قائم ’گلف رسرچ سینٹر‘ میں بین الاقوامی تعلیمات کے سربراہ ہیں۔
اُن کے بقول، یقینی طور پر، یہ بات شدید تشویش کی باعث ہے، جس کا بنیادی طور پر اس بات سے تعلق ہے کہ اخوان المسلمون کو ایسا گروہ سمجھا جانے لگا ہے جو کسی ملک کے سیاسی عمل کو ہائی جیک کرنے کا خواہاں ہے۔
سنہ 2012میں دبئی پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ اخوان المسلمون یہ کوشش کرتی رہی ہے کہ خلیج بھر کی حکومتوں کا تختہ الٹ کر وہاں اسلامی شریعت نافذ کرے۔ زیادہ تر خطے میں اس گروہ پر پابندی عائد ہے۔
لوری پلوتکن بوگارد ’واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فور نیئر ایسٹ پالیسی‘ میں خلیج کی سیاست کی فیلو ہیں۔ اُن کے بقول، متحدہ عرب امارات کی حکومت کی طرف سے جاری پریشانی درحقیقت اس بات کی باعث ہے کہ ’عرب اسپرنگ‘ کے بعد مشرق وسطیٰ بھر میں اسلام پرستی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
تمام کے تمام چھ عرب ریاستوں کے حکمراں سلطان ہیں، جنھوں نے کئی ایک ایسے اقدام کر رکھے ہیں جن کی مدد سے یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ اصلاحات کے نام پر سر اٹھانے والے عرب انقلابوں کے جراثیم اُن کی سرحدوں میں داخل نہ ہو پائیں۔
منگل کے روز حقوق ِانسانی کے گروپوں نے الزام لگایا کہ اس فیصلے کے پیچھے سیاسی محرکات کارفرما ہیں۔ ملک کے خبر رساں ادارے، ’وام‘ کے مطابق، اِن 30مجرمان کو چھ ماہ سے پانچ برس تک کی قید کی سزائیں ہوئی ہیں۔
اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوسکتی۔
ابو ظہبی سے ’وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار، والٹر ویلمن نے رپورٹ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس گروہ کے افراد میں سے 20 کا تعلق مصر سے، جب کہ 10 کا امارات سے ہے؛ جب کہ حکام کی طرف سے قید کیے جانے والے مبینہ اسلام پرستوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
اُن پر لگائے گئے الزامات میں اخوان المسلمون کی ’بین الاقوامی‘ شاخ چلانے کے علاوہ ، استغاثے کا کہنا ہے کہ اِن افراد نے حکومت کی خفیہ معلومات بھی چرائی اور اجازت کے بغیر اپنی تنظیم کے لیے چندہ جمع کیا۔
الزامات کو مسترد کرتے ہوئے، ملزمان نے کہا ہے کہ پولیس حراست کے دوران اُن پر تشدد کیا گیا۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ مقدمے کے دوران، جو پانچ نومبر سے شروع ہوا، مقدمے کی پیروی کے دوران، اُنھیں مناسب قانونی امداد سے محروم رکھا گیا۔
حکومت نے اِس بات کا بارہا اعادہ کیا ہے کہ تشدد کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا جائے۔
ایک علیحدہ مقدمے میں جس کی کارروائی جولائی میں مکمل ہوئی، 69 اسلام پرست، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ’الاصلاح‘ نامی مقامی گروہ سے ہے، وہ متحدہ عرب امارات کے سیاسی نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرنے میں ملوث پائے گئے، جنھیں 15 برس تک کی سزا ہوئی ہے۔
کرسچین کوچ، جنیوا میں قائم ’گلف رسرچ سینٹر‘ میں بین الاقوامی تعلیمات کے سربراہ ہیں۔
اُن کے بقول، یقینی طور پر، یہ بات شدید تشویش کی باعث ہے، جس کا بنیادی طور پر اس بات سے تعلق ہے کہ اخوان المسلمون کو ایسا گروہ سمجھا جانے لگا ہے جو کسی ملک کے سیاسی عمل کو ہائی جیک کرنے کا خواہاں ہے۔
سنہ 2012میں دبئی پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ اخوان المسلمون یہ کوشش کرتی رہی ہے کہ خلیج بھر کی حکومتوں کا تختہ الٹ کر وہاں اسلامی شریعت نافذ کرے۔ زیادہ تر خطے میں اس گروہ پر پابندی عائد ہے۔
لوری پلوتکن بوگارد ’واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فور نیئر ایسٹ پالیسی‘ میں خلیج کی سیاست کی فیلو ہیں۔ اُن کے بقول، متحدہ عرب امارات کی حکومت کی طرف سے جاری پریشانی درحقیقت اس بات کی باعث ہے کہ ’عرب اسپرنگ‘ کے بعد مشرق وسطیٰ بھر میں اسلام پرستی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
تمام کے تمام چھ عرب ریاستوں کے حکمراں سلطان ہیں، جنھوں نے کئی ایک ایسے اقدام کر رکھے ہیں جن کی مدد سے یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ اصلاحات کے نام پر سر اٹھانے والے عرب انقلابوں کے جراثیم اُن کی سرحدوں میں داخل نہ ہو پائیں۔
منگل کے روز حقوق ِانسانی کے گروپوں نے الزام لگایا کہ اس فیصلے کے پیچھے سیاسی محرکات کارفرما ہیں۔ ملک کے خبر رساں ادارے، ’وام‘ کے مطابق، اِن 30مجرمان کو چھ ماہ سے پانچ برس تک کی قید کی سزائیں ہوئی ہیں۔
اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوسکتی۔