رسائی کے لنکس

ایران میں مظاہرین کے خلاف بڑھتے تشدد پر اقوام متحدہ کی تنقید


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اقوام متحدہ نے منگل کے روز اسلامی جمہوریہ ایران میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے خلاف بڑھتی ہوئی سخت کارروایئوں پر اسے تنقید کا نشانہ بنایاہے۔یہ مظاہرے ملک کی اخلاقی پولیس کی تحویل میں ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔

ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اور اکثر سڑکوں پر ہونے والی جھڑپوں میں جودو ماہ سے جاری ہیں 300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں تقریباً 40 بچے بھی شامل ہیں۔

ایران کا کہنا ہے کہ اس کی سیکیورٹی فورسز کے 46 ارکان مارے گئے ہیں، لیکن حکومت نے ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں مزید کوئی اعدادو شمار فراہم نہیں کیے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے سربراہ وولکر ٹرک کے ترجان جیفری لارنس نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ حقوق انسانی کمیشن کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایران میں احتجاجی مظاہروں سے ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد،جن میں اختتام ہفتہ دو بچوں کی ہلاکت بھی شامل ہے اور سیکیورٹی فورسز کی طرف سے سخت کارروائیاں ملک کی نازک صورت حال کو اجاگر کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ احتجاج کو دبانے کے لیے غیر ضروری یا غیر متناسب طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے مساوات، وقار اور حقوق کے لیے لوگوں کے مطالبات کو پورا کریں۔ ایران میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہی کا فقدان بدستور برقرار ہے اور بڑھتی ہوئی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔

تہران 1979 کے انقلاب کے بعد سے ملک کی اسلام پسند قیادت کے لیے اب تک کےسب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک یعنی مظاہروں کے لیے غیر ملکی دشمنوں اور ان کے ایجنٹوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔

ایران کی فٹ بال ٹیم نے مظاہرین کی حمایت میں پیر کو قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں اپنے پہلے میچ کے آغاز میں ملک کا قومی ترانہ گانے سے انکار کر دیا۔

مظاہرے ستمبر کے وسط میں مہسا امینی کی موت کے فوراً بعد شروع ہوئے، جس کی ہلاکت کا سبب ایرانی حکام نے دل کے دورے کو قرار دیا تھا۔ اسے مبینہ طور پر حجاب سے اپنے بالوں کو صحیح طریقے سے نہ ڈھانپنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ امینی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں دل کی کوئی تکلیف نہیں تھی۔

اس ہفتے کے آخر میں، جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل ان مظاہروں پر بحث کر رہی ہے جس میں عینی شاہدین اور متاثرین کی شرکت متوقع ہے۔

اجلاس میں زیر بحث آنے والی تجاویز میں سے ایک اس آمرانہ کریک ڈاؤن پر حقائق تلاش کرنے کا مشن قائم کرنے کی بھی ہے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان لارنس نے کہا، ’’حالیہ دنوں میں بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ ہمیں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کئی بڑے کرد شہروں میں، جن میں جاونرود اور ساقیز شامل ہیں، مظاہروں کا قوت سے جواب دینے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مظاہروں کے شروع ہی سے، "ایران کے 31 میں سے 25 صوبوں میں مظاہرین مارے جا چکے ہیں، جن میں سیستان اور بلوچستان میں 100 سے زیادہ لوگ شامل ہیں۔

لارنس نے حکام کی جانب سے ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کرنے سے انکار یا اس شرط پر حوالے کرنے کے معاملے پر بطور خاص تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ان کے ورثااس بارے میں میڈیا سے بات نہیں کریں گے یا موت کی وجہ کے بارے میں جھوٹا بیان دیں گے۔

انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں ہزاروں افراد کو "پرامن مظاہروں میں شامل ہونے پر حراست میں لیا گیااور ایران کی مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے مظاہروں کی حمایت کا اظہار کیا ہے، ان کو طلب کرکے گرفتار کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خاص طور پر تشویش ناک بات یہ تھی کہ احتجاج سے وابستہ چھ افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔

لارنس نے کہا، "ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان تمام لوگوں کو رہا کیا جائےجو اپنے حق کا استعمال کر رہے تھےاور ان کے خلاف الزامات کو ختم کیا جائے۔"

انہوں نے کہا کہ "ہمارا دفتر ایرانی حکام سے یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فوری طور پر سزائے موت پر پابندی عائد کریں اور ایسے جرائم کے لیے دی گئی سزائے موت کو منسوخ کریں جو بین الاقوامی قانون کے تحت سنگین ترین جرائم کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔

اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد رائٹرز اور اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG