اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق ایک رپورٹ میں عالمی سطح پر توہین مذہب کے بارے میں قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایسے قوانین سے نا صرف آزادی اظہار کا عمل متاثر ہوا بلکہ ان سے مذہبی اقلیتوں کے بارے میں عدم برداشت بھی بڑھی۔
اقوام متحدہ کے ایک تفتیش کار ہینر بیلیفلیڈ نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا کہ مذہبی آزادی اور آزادی اظہار کا آپس میں تعلق ہے، لیکن توہین مذہب سے متعلق قوانین سے یہ دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔
ہینر نے کہا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے تحت جرم کا ارتکاب کرنے والے کے لیے موت کی سزا ہے تاہم ابھی تک کسی کو بھی اس جرم میں سنائی گئی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ لیکن توہین مذہب کے قانون کے تحت سزا یافتہ کئی لوگوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب کا معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ رہا ہے اور میں ترمیم یا اس بابت بات کرنے والوں کو بھی بظاہر خصوصاً مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔
صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ایسے ہی ایک بیان پر ان کے اپنے محافظ ممتاز قادری نے جنوری 2011ء میں قتل کر دیا تھا جب کہ اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو بھی توہین مذہب کے قانون میں نظر ثانی سے متعلق موقف رکھنے پر شدت پسندوں نے مارچ 2011 میں قتل کر دیا گیا۔ یہ دونوں واقعات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پیش آئے تھے۔
ایوان بالا "سینیٹ" کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی سربراہ سینیٹر نسرین جلیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ حکومت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مختلف اقدام کر رہی ہے جب کہ وزارت قانون نے انھیں بتایا ہے کہ توہین مذہب کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے بھی کام کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ "اب لوگ اس بارے میں بات کر رہے ہیں۔۔۔لوگوں کو ہم خیال بنانے میں وقت درکار ہوگا کہ ہم بغیر لڑائی جھگڑے کے اور ایک دوسرے کو کافر قرار دیے ہوئے اس میں تبدیلی لا سکیں۔"
محقق کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور یورپ میں کئی ممالک میں توہین مذہب کے قوانین ہیں۔