پیمرا نے پاکستانی ٹیلی ویژن چینلز کو ہدایت کی ہے کہ حالیہ ایران سعودی عرب تنازع پر حالات حاضرہ کے پروگراموں اور خبروں کی نشریات میں احتیاط برتا جائے۔
اس حوالے سے پیمرا کے جاری کردہ ہدایت نامے میں نجی چینلز کو ان کے لائسنس کے بنیادی اصول یاد دلائے گئے ہیں، جن میں شامل ہے کہ نجی ٹی وی کوئی ایسا مواد نشر نہیں کریں گے جو کسی مذہب، فرقہ یا برادری کے خلاف توہین آمیز کلمات پر مبنی ہو یا مذہبی گروپوں کے درمیان عدم ہم آہنگی کا باعث بنے؛ اور نسل، ذات یا قومیت پر رائے زنی کسی طور پر کسی منافرت یا ہتک کو جنم دے۔
ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ لائسنس یافتہ ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کے نمائندے، میزبان اور پروڈیوسر پروگرام ریکارڈ کرکے نشر کرنے سے پہلے اس کا جائزہ لیں آیا یہ ضابطہٴ کار کی روح کے مطابق ہے یا نہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسا پروگرام نشر نہیں کیا جائے گا جس میں مذہب، فرقہ، کمیونٹی یا لسانی گروہ کے نام پر تشدد کے لئے اشتعال دلایا جاتا ہو؛ اور قانون کی خلاف ورزی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔
ہدایت نامے کے مطابق، ’چینل مالکان اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ کسی بھی ملازم یا مہمان کی جانب سے نفرت آمیز بیانات نشر نہیں ہوں گے یا کسی شخص یا شہری کو کافر، پاکستان دشمن، اسلام دشمن یا کسی اور مذہب کا دشمن قرار نہیں دیا جائے گا‘۔
یہ ہدایت نامہ تمام ٹی وی چینلز کو جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’ٹاک شو اور خبریں نشر کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس سے دو برادر ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات پر اثر نہ پڑے‘۔
ہدایت نامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’یہ بات ہمارے نوٹس میں آئی ہے کہ چند ٹاک شوز کے اینکر مسلسل ایسے الفاظ اور نکتہ نظر کا اظہار کرتے ہیں جو نہ صرف دوسرے فریق کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں، بلکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت حکومت پاکستان کی جانب سے فرقہ وارانہ تناؤ کے خاتمے کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچانے کا امکان ہو سکتا ہے۔ اور یہ کہ میڈیا ہاؤسز ایسے پروگرام نشر کرنے سے احتراز کریں جن سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو‘۔
نجی ٹیلی ویژن چینلز کو جاری کئے جانے والے اس ہدایت نامے کا پس منظر سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی بتائی جا رہی ہے، جس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔
پیمرا کے اعلیٰ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’ٹاک شوز میں ایسے لوگوں کو مہمان کے طور پر بلایا جاتا ہے جو خود کو مذہبی رہنما کہتے ہیں اور جو متازعہ مذہبی امور کو زیر بحث لاتے ہیں، جس کی نہ صرف ضرورت نہیں بلکہ اس سے دیگر لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔
پیمرا حکام نے کہا ہے کہ ’ٹاک شو سیاسی ہیں، انھیں سیاسی ہی رہنا چاہئے؛ انہیں مذہبی رنگ دینے کی کوشش نہ کی جائے‘۔
انھوں نے پیمرا کے ہدایت نامہ کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس ملک میں شعیہ بھی رہتے ہیں اور سنی بھی۔۔ اور، یہ کہ محض ریٹنگ بڑھانے کے لئے کشیدگی کو ہوا نہ دی جائے‘۔
پیمرا کے ہدایت نامے پر تبصرہ کے لئے جب پاکستان کے چند نامور اینکرز سے رابطہ کیا گیا تو ان میں سے اکثر نے اس موضوع پر بات سے گریز کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ اس قدر حساس معاملہ ہے کہ ان کی رائے کو مذہبی رنگ دے کر سخت ردعمل سامنے آسکتا ہے۔
انھوں نے یاد دلایا کہ گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی کے میزبان نے اس موضوع پر بات کی تو اس کا اس قدر سخت ردعمل آیا کہ ٹیلی ویژن چینل کو معافی مانگنی پڑی۔
تاہم، ڈان نیوز میں حالات حاضرہ کے پروگرام کے ایک میزبان، امیر عباس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پیمرا کو یہ ہدایت نامہ جاری نہیں کرنا چاہئے تھا، کیونکہ یہ آزادی اظہار کے منافی ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں ٹی وی چینلز پہلے ہی اس موضوع پر بہت احتیاط سے بات کرتے ہیں۔ لیکن، مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں باخبر رہنا پاکستانی عوام کا حق ہے جس کو پیمرا کے ہدایت نامے کے ذریعے محروم کرنا مناسب نہیں‘۔